حال ہی میں راقم نے دو ایک دوستوں کی کتابوں پر کچھ الٹا سیدھا کمنٹ کیا، تو بعض اور معزز لکھاریوں نے ای ۔ میل کر کے پوچھا کہ اگر وہ اپنی مطبوعات بھجوائیں تو کیا ان پر بھی ’’کچھ‘‘ لکھا جا سکتا ہے، زہے نصیب کہ ملک کا یہ چنیدہ طبقہ راقم کو اس اہل سمجھتا ہے۔ مگر میرا ایک مسئلہ ہے کہ مجھے فرمائشی تبصرے لکھنا نہیں آتے۔ جو محسوس کرتا ہوں اور جو درست سمجھتا ہوں ، نوک قلم سے نکل جاتا ہے۔ اور کتاب تو لکھنے والے کے لئے بمنزلہ اولاد ہوتی ہے۔ اگر کسی تخلیق کے بارے میں کچھ ناروا قلم سے نکل گیا ، تو ان سے زیادہ دکھ مجھے ہو گا۔ بس یہی ایک مسئلہ ہے ، اس کے باوجود دوست اگر مہربانی فرمانا چاہتے ہیں ، تو چشم ماروشن دِلِ ماشاد!