براعظم انٹارکٹیکا میں گرمی کی پہلی لہر ریکارڈ، پودوں اور حیوانات کو خطرے کا سامنا

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) سائنسدانوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ براعظم انٹارکٹیکا میں گرمی کی لہر ریکارڈ کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ یہ پیش رفت دنیا سے الگ تھلگ براعظم کے جانوروں اور پودوں پرگہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ گلوبل چینج بائیولوجی جرنل کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے جنوری 2020ء میں درجہ حرارت میں اضافہ کے بعد براعظم انٹارکٹیکا میں گرمی کی پہلی لہر ریکارڈ کی ہے۔ محققین نے اس حوالے سے پودوں اور حیوانات کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آسٹریلین انٹارکٹک پروگرام کے محققین نے یہ ڈیٹا 2019ء اور 2020ء کے درمیان انٹارکٹیکا کے مشرق میں واقع ریسرچ سینٹر پر اکٹھا کیا ہے۔ تحقیق میں شامل سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس پیش رفت سے عالمی موسمیاتی رجحانات بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق 23 اور 26 جنوری 2020ء کے درمیان اس براعظم پر حیران کن طور پر سب سے زیادہ اور سب سے کم درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ان چند دنوں کے دوران برف سے ڈھکی اس سرزمین پر کم سے کم درجہ حرارت بھی صفر ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہی رہا ہے۔ 24 جنوری کو درجہ حرارت 9.2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جبکہ ماضی کا ریکارڈ 6.9 ڈگری تھا۔ ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں اتنی زیادہ تبدیلی پہلی کبھی نہیں دیکھی گئی۔ رپورٹ کے مطابق اس براعظم کی دوسری جانب جزیرہ نما انٹارکٹیک پر بھی اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 18.3 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔ تحقیق میں شامل سائنسدانوں نے کہا ہے کہ انٹارکٹیکا کے موسم میں تبدیلیوں کے عالمی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق دنیا کا سمندری نظام اس جگہ سے جڑا ہے۔ گہرے سمندر میں پانی کی گردش کا ایک مستقل نظام موجود ہے اور یہی نظام سمندری گرمی یا درجہ حرارت کو زمین کے ارد گرد منتقل کرتا ہے اور اس براعظم کی پگھلتی ہوئی برف سمندروں کی سطح میں اضافے کا سبب بن رہی ہے جس سے ان سمندروں کے ساحلوں پر آباد شہروں کی بڑی تعداد اور ان کے بیچ واقع جزائر پر انسانی آبادیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ محققین نے خبردار کیا ہے کہ عالمی سطح سمندر میں اضافہ سے بنگلہ دیش جیسے ممالک کی خشک زمین کے کئی حصے پانی میں ڈوب جائیں گے۔ تحقیق میں شامل محقق ڈینا بیرگ سٹروم نے اس حوالے سے کہا ہے کہ گرم موسم ابتدائی طور پر تو مقامی آبادیوں کے لیے مثبت ثابت ہوتا ہے لیکن یہ بعد میں خشک سالی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ سردی کی عادی مخلوقات کے لیے پریشان کن بھی ثابت ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق انٹارکٹیکا میں ابھی زیادہ تر حیوانات برف سے پاک چھوٹے چھوٹے نخلستانون میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی زندگیوں کا انحصار پگھلتی ہوئی برف اور واٹر سپلائی پر ہے۔ تیزی سے پگھلتی ہوئی برف انہیں مستقبل قریب میں تو فائدہ پہنچا سکتی ہے لیکن مستقل بنیادوں پر یہاں پر ایکو سسٹم مکمل تبدیل ہونے کا خطرہ ہے اور اس کے اثرات دنیا کے دیگر خطوں پر بھی مرتب ہوں۔

ای پیپر دی نیشن