اسلام آباد(صلاح الدین خان/نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں ہائیکورٹس کی جانب سے ملک میں کرونا وباء کے باعث جیلوں میں قید ملزموں و مجرمان کی رہائی کے احکامات سے متعلق کیس کی سماعت۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن کی بھوک رزق کی بھوک سے زیادہ ہوتی ہے، کرپشن کرنے والے کو موقع نہیں ملے گا تو وہ دیگر جرائم ہی کرے گا، کرپشن کرنے والوں کو روز پیسہ کمانے کا چسکا لگا ہوتا ہے، ہائی کورٹس نے کس کے کہنے پر اور کس قانون کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا؟ سیکشن 168 کب اور کہاں اپلائی ہوتا ہے؟ عدالت نے حکومت سے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے ادویات اور بستروں کی دستیابی سے متعلق رپورٹ طلب کر لی، عدالت نے حفاظی کرونا کٹس اور وینٹی لیٹرزکی تفصیلات بھی طلب کی ہیں، صوبائی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے تمام نئے قیدیوں کی سکریننگ کرنا لازم قرار دیا ہے، عدالت نے جیلوں میں گنجائش اور موجود قیدیوں کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں، عدالت کوآگاہ کیا جائے کتنے ملزم اور کتنے مجرمان ہیں، علاوہ ازیں خواتین اور60 سال سے بڑی عمر کے قیدیوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیا، ہے عدالت نے ہدایت کی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کرونا سے متاثرہ کوئی شخص جیل میں داخل نہ ہو سکے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جیلوں میں ڈاکٹرز کی خالی آسامیوں پر بھی جواب طلب کیا گیا ہے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 6اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے پہلے ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کا جائزہ لینا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں، سندھ ہائی کورٹ میں بھی کسی بادشاہ نے شاہی فرمان جاری کیا، ملک میں جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہوگا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی خود کو بادشاہ سمجھ کر حکم جاری کرے، کس قانون کے تحت ملزموں اور مجرموں کو ایسے رہا کیا جا سکتا ہے، ملزموں کو پکڑنا پہلے ہی ملک میں مشکل کام ہے، جرائم پیشہ افراد کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا، پولیس کرونا کی ایمرجنسی میں مصروف ہے، ان حالات میں جرائم پیشہ افراد کو کیسے سڑکوں پر نکلنے دیں؟ کراچی میں ملزموں کی ضمانت ہوتے ہی ڈکیتیاں شروع ہو گئی ہیں، ڈیفنس کا علاقہ ڈاکوئوں کے کنٹرول میں ہے، ڈیفنس میں رات کو تین بجے ڈاکو کرونا مریض کے نام پر آتے ہیں اور کرونا مریض کی چیکنگ کے نام پر گھروں کا صفایا کر رہے ہیں، جب سے ہائی کورٹ سے ضمانت ہوئی ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں، زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے، کرپشن کرنے والوں کا دھندا لاک ڈاؤن سے بند ہوگیا، سندھ میں کرپشن کے ملزمان کو بھی رہا کر دیا گیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ کے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، کرپشن کرنے والے کو موقع نہیں ملے گا تو وہ دیگر جرائم ہی کرے گا، جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ جیلیں خالی کرنے سے کرونا وائرس ختم نہیں ہو جائے گا، قیدیوں کے تحفظ کے لیے قانون میں طریقہ کار موجود ہے، جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون کہتا ہے متاثرہ قیدیوں کو قرنطینہ میں رکھا جائے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیلوں میں وائرس پھیلا تو الزام سپریم کورٹ پر آئے گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے قانون کو دیکھنا ہے، کسی الزام کی پرواہ نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ عدالت اس مقدمے میں یونیفارم گائیڈ لائن دے، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لاہور میں کیمپ جیل 6 کو قرنطینہ بنا دیا گیا ہے، جو مشتبہ ہے اسکو قرنطینہ میں رکھا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت پر کئی ملزمان کو چھوڑا گیا، کس کس کو چھوڑا گیا معلوم نہیں، ایسے لوگوں کو رہا کرنا ہے تو جیلوں کا سسٹم بند کر دیں، جس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید قلب حسن نے کہا کہ جیلوں میں ایسے بھی قیدی ہیں جو اپنی ضمانت نہیں کروا سکتے، قیدیوں کی نظر اللہ کے بعد صرف عدالت پر ہے، جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہیپاٹائٹس کے مرض کا شور اٹھا تو کیا قیدیوں کو چھوڑ دیا گیا؟ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ عدالت لوگوں کی زندگیاں بچانے میں ناکام نہیں ہوگی، جو بھی ہوگا لیگل فریم ورک کے اندر ہوگا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے 4 سطروں کی مبہم پریس ریلیز جاری کی، پریس ریلیز سے کتنے قیدیوں کو رہائی ملی؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات سے 829 قیدیوں میں سے 519 رہا ہوچکے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ رہا ہونے والے 519 قیدی کس قسم کے جرائم میں ملوث تھے اور رہا افراد کی تفصیلات طلب کر لی، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے انتظامی حکم پر قیدیوں کی رہائی کی سمری تیار ہوئی، جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ کے پاس ایسے انتظامی احکامات دینے کا اختیار کہاں سے آ گیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نہ روکتی تو پنجاب سے10 ہزار جرائم پیشہ لوگ رہا ہو جاتے، جیلوں میں تو باہر سے کوئی جا ہی نہیں سکتا، خیبرپی کے کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کے پی حکومت نے کوئی قیدی رہا نہیں کیا، جسٹس سجاد علی شاہ نے دریافت کیا کہ کیا ہائی کورٹس نے ہر مقدمے کا الگ جائزہ لیکر رہائی کا حکم دیا؟ کیا اجتماعی طور پر ضمانت کا حکم دیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی سرزنش کی اور استفسار کیا کہ آپ نے ہائی کورٹ کی کیا معاونت کی؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد عدالتی سوالات کا جواب نہ دے سکے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آپ ہائی کورٹ میں بھی ڈمی بن کر کھڑے رہے تھے، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں 5 کرونا کیس نکلنے پر ڈیفنس میں بنگلہ سیل کیا گیا، جیلوں کو خالی کرکے لوگوں کے گھروں کو سیل کیا جا رہا ہے، کیا سندھ میں کوئی دماغ استعمال بھی کرتا ہے یا نہیں؟ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کرونا کا مریض شریف آدمی بھی ہو تو پولیس کے ذریعے پکڑوایا جاتا ہے، شریف آدمی کو پکڑوا رہے اور جرائم پیشہ افراد کو چھوڑا جا رہا ہے، جسٹس سجاد علی شاہ نے دریافت کیا کہ سندھ کی جیلوں میں کرونا وائرس کے کتنے مریض سامنے آئے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے آگاہ کیا کہ صرف ان قیدیوں کو رہا کیا گیا جن کی سزائیں 3 سال سے کم تھیں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اختیار کیا کہ برطانیہ میں بھی قیدیوں کو رہا کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ برطانیہ میں قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی نے رہائی نہیں دی ہوگی، اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ401 کے تحت نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جو منظوری کے لیے سندھ کابینہ میں پیش کیا جائے گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عملی طور پر وزیراعلی اور سندھ کابینہ میں کوئی فرق نہیں، جرائم پیشہ لوگوں کو چھوڑنا بڑا خطرناک ہو سکتا ہے، یہ رہا ہونے والے لوگ دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ اس معاملے پر اپنی گائیڈ لائن دے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قیدیوں کی رہائی کی فہرستیں کس نے بنائی، سب نے اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ دیا ہوگا، یہ انتخاب کیسے ہوا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 26 مارچ کو قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا اسی دن فہرست بھی بن گئی لگتا ہے یہ فہرست پہلے ہی بنا لی گئی تھیں، جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب کے ملزمان بھی معمولی جرائم میں میں آتے ہیں،اس پر عدالتی معاون شیخ ضمیر نے کہا کہ قیدیوں کی بھلائی چاہتا ہوں لیکن عدالتی احکامات کی حمایت نہیں کرتا، معاشرے کے خلاف جرائم میں تفریق کرنا پڑے گی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس کے کہنے پر اور کس قانون کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا؟۔