ہاتھ میں کپڑا تھا بالکل سامنے ’’دکاندار‘‘ نے چھینک مار دی ۔ نہ منہ پر ہاتھ رکھا نہ رُخ دوسری طرف کیا ۔ بیحد تکلیف محسوس کی۔ اچانک اُفتاد سے گھبرا کر صرف اتنا کہا ۔او ہو تم نے ہمارے اُوپر چھینک مار دی۔ منہ پر ہاتھ رکھ لیتے ۔ بچہ سا تھا مگر دیکھنے کا انداز نہیں بُھولے گا۔ انتہائی برہمی سے یوں دیکھا جیسے کوئی بہت ترش بات کہہ دی یا پھر ؟یہاں بھی شاید ہم غلط تھے ایک ایسے شہر میں جہاں روپے پیسے کی انتہائی فراوانی ہو ۔ وہ ’’شہر‘‘ جو ’’کرونا عروج‘‘ میں بھی بند نہیں ہوا اِس کے باوجود کہ شادیوں سے زیادہ جنازے اُٹھائے گئے مگر اکثریت کرونا نام کی بیماری کو ماننے سے انکاری تھی۔
’’چاچا‘‘ آپ ماسک پہن لیں۔ ماسک نہ اُتاریں۔ کرونا بہت پھیل رہا ہے۔ یہ اور اِس جیسے کتنے ہی فقرے بیسیوں مرتبہ دن میں بولنا پڑتے ہیں مگر اُس طرف کی سوچ ۔ فراست کی کھڑکی شاید بنی نہیں تھی اِسی لیے آج ناراضگی کے عالم میں بولا آپ ہی کرونا ۔ کرونا کرتی رہتی ہیں پورے پاکستان میں کِسی کو کچھ نہیں ہے۔ میں پریشان کھڑی رہ گئی کہ اُوپر سے ۔ یہ حکومت فلاں ۔ وہ لیڈر فلاں ۔ اِ س ملک میں کوئی کرونا نہیں ہے جیسے الفاظ ۔ مجھے تو لگتا ہے ماسک پہننے سے جیسے قبر میں بند ہو گیا ہوں۔ تعلیم کے حوالے سے دیکھیں تو دیہات کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے ۔مگر شہروں میں بھی زیادہ تر لوگ کرونا کے وجود سے ہی انکاری ہیں ۔ اب اِن کو کون سمجھائے ۔ ایک سال سے سکول بند۔ کاروبار تقریباً ٹھپ ۔ اخبار سے ٹی وی تک سبھی دن رات ’’کرونا کوریج‘‘ میں مصروف ۔ ہر لمحہ بدلتے اعداد شمار ۔ بڑھتے گراف کو سُن کو بھی اگر کوئی انکار کرے تو ؟
یہاں کے لوگوں کے ناک خشک ۔ خاردارپہاڑوں سے بھی زیادہ اُونچے ہیں اور ترش رو بھی ۔ جن علاقوں کے باسیوں کی خوبی نماز۔ حجاب کی پابندی ہو وہاں تو شریعت کے طے کردہ امور کی پابندی از حد ضروری ہے۔ راہ چلتے تھوکنا۔ ہر دوسرا شخص ایسا کرتا دکھائی دیا۔ صفائی نصف ایمان ہے۔اِس بڑی خلاف ورزی پر کوئی رنج نہیں۔ چھوٹی سی بات پر اتنا غصہ۔ نہ مہمان کی تکریم نہ بنیادی اسلامی اصول۔ ضابطوں کی آگاہی۔ جس سے ملنا ہوا اُس نے اپنی حالت کا ذِمہ دارمقامی قیادت کو ٹھہرایا۔ بچپن سے ابتک پسماندہ ۔ مظلوم سمجھے جانے والے حقیقی طور پر اتنے پسماندہ نہیں اور نہ ہی مظلوم ہیں۔ اصل صورت یہ ہے کہ یہ لوگ صرف کمانا جانتے ہیں خرچ کرنا نہیں ۔ ظلم کا ساتھ دیتے ہیں مگر مظلوم کا ساتھ نہیں دیتے ۔ اگر اِنکے نزدیک ہر خان۔ سردار اپنے علاقے کا ظالم شخص ہے تو پھر یہ لوگ بھی مظلوم نہیں کیونکہ ظلم ایک ہاتھ کا کام نہیں ۔ نا انصافی ۔ حق تلفی ایک کندھا نہیں سہار سکتا ۔ ہم جیسے لوگ ظالموں کی پشت پنائی کرتے ہیں ۔ سچ کو بند کمرے میں بولتے ہیں۔ سامنے نہیں ۔ حق ۔ انصاف کی باتیں دوسروں کیلئے کرتے ہیں اپنے ذاتی معاملات میں انتہائی خود غرض ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حکمران خلفائے راشدین مثل ہوں مگر ہم ؟ ایک دودھ فروش اپنے ہم وطنوں کو خالص دودھ فراہم نہیں کرسکتا ۔ سینکڑوں مثالیں ہیں ہماری عادات۔ رویوں کی اور جو ہماری توقعات ہیں اسکی کوئی حد بندی نہیں ۔ کوئی متعین فہرست نہیں لامحدود۔انگنت خواہشات ۔ طمع سے بندھا لمحہ موجود کا انسان ہیچ صیقل نکو نداند کرد ۔ آہنے را کہ بد گہر ترجمہ: کوئی سی بھی قلعی نہیں چمکا سکتی ۔ اس لوہے کو جس کی اصل خراب ہونیا علاقہ ۔ نیا گھر طویل عرصہ سے بندھے نظام سے سول زندگی کی طرف آئے تو ظاہر ہے کچھ ملازمین بھی اُسی حساب کے چاہیے تھے ۔ ڈھنگ کے مالی کی تلاش میں قریبی ہمسائی سے پوچھا ’’آپ کا مالی کیسا ہے َ‘‘ جواب ملا گھاس کاٹ لیتا ہے۔ 3 مرتبہ لان اندر باہر سے انسانی قد کے نصف تک کھود ڈالا ۔ ہر مرتبہ نئی مٹی ڈالی ۔ قیمتی گھاس لگائی مگر نتائج زیرو۔ نہ گھاس قالین مانند بن پائی نہ پُھول اُگے ۔ ایک دن کہنے لگا گھاس نئی لگوا لیں۔ میں نے کہا گھاس نئی لگوانے کی بجائے بندہ کیوں نہ بدل دوں ۔ اِس معاملہ میں حکومت ہم سے بازی لے گئی۔ یکے بعد دیگرے اپنے وقت کے اہل ترین (بزعم حکومت) لوگ بدل ڈالے ۔ آج ایسے ہی کانوں میں ہمسائی کے الفاظ گونج اُٹھے ’’گھاس کاٹ لیتا ہے‘‘۔ تب ہم نے الفاظ پر غور کیا اور نہ حکومت نے عقلمند۔ صاحب رائے لوگوں کے تحفظات پر یقین کیا ۔ نتیجہ نقصان ہوگیا اِس طرف ہزاروں روپے کا ۔ دوسری طر ف ’’اربوں روپے‘‘ کا ۔ صلاحیت ۔ قابلیت وہ نہیں جو آپ کے ذاتی کاروبار میں بڑھوتری دکھائے ۔ ہر شخص اپنے معاملہ میں عقلمند ہے۔ سوچنے والی بات ہے ایک خوبی آپکے ذاتی کاروبار۔ صنعت کو ساتویں آسمان پر پہنچا دے اور وہی خوبی عوامی ذِمہ داری کے ضمن میں ’’اربوں روپے‘‘ کا چونا لگا دے تو ؟
لوگ ڈرتے کیوں ہیں ؟ سچی بات کیوں چھپاتے ہیں ؟ سگے بہن بھائی بھی ایک دوسرے کے متعلق حقائق کو پی جاتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ لوگ اس لیے ڈرتے ہیں کہ کہیں دھر نہ لیے جائیں ۔ وضاحتوں میں نہ گھسیٹ لیے جائیں ۔ کہیں سچ اُگل کر کٹہرے میں نہ کھڑے کر دئیے جائیں ۔ یہ تو کھلم کھلا دوغلا پن ہے۔ سچ کی راہ سے رُدگردانی ہے۔ کون اِس سوچ کو پروان چڑھا رہا ہے ؟ زمانہ بڑی انوکھی ۔ انہونی چال چل رہا ہے۔ انسان جھوٹ ۔ مکر ۔ دھوکہ دہی کی آندھی کی زد میں ہے۔ اکثریت ان قباحتوں میں مبتلا ہے اور بڑے سکون میں ہے۔اقلیت اپنے بچاؤ کی تدبیر میں غلطاں ہچکولوں کی زد میں ہے۔ بچنا چاہتے ہیں مگر پھر لپیٹے میں آجاتے ہیں۔ حالات۔ واقعات ۔ لوگ باگ سب مخالف سمت کے مسافر ۔ دوغلی پالیسی کے پیروکارہیں۔ سو زمانے کی چال بھی انہی کے بنائے ہوئے نقشہ کے مطابق چل رہی ہے جو سچ ہے وہ فی الحال کافی عرصہ تک تنگ ۔ اندھیری گھاٹی میں بھٹکتا پھرے گا۔ سچا آجکل بے سمت کا مسافر ہے۔ کوئی سچ کا ساتھ نہیں دیتا۔ کوئی سچ کی تصدیق ۔ تائید نہیں کرتا۔ اور جھوٹ ۔ ایک اندھا پیر ۔ دیوتا ہے۔ ایک بہرہ رہنما ہے لوگ اس کے پیچھے سرپٹ بھاگے جارہے ہیں اور قیامت تک یونہی بھاگتے رہیں گے۔
تاچی خواہی خریدن اے مغرور
روزِ درماندگی بسیمِ دَغل
ترجمعہ:ارے مغرور ! آخر تو کیا خرید پائے گا ضرورت کے دن کہ تیری چاندی تو کھوٹی ہے
’’تیری چاندی تو کھوٹی ہے ‘ ‘
Apr 02, 2021