ایماندار لیکن اہل قیادت 

ویسے تو دنیا کے ہر ملک میں زیادہ تر لوگ اپنے اپنے دھندوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ملازمت ، کاروبار ،دستکاری اور بچوں کی دیکھ بھال پر ہی اُن کی توجہ مرکوز رہتی ہے۔ لیکن مختلف ریاستوں میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو قومی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ اس چیز کا احساس ہوتا ہے کہ اُن کی پہچان ان کاملک ہے اور یہ کہ ملکی سلامتی کو لاحق خطرات ان کے حقوق ، کاروبار، اثاثوں اور ملازمتوں کو بہا کر لے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو صوبائیت ، لسانیت ، فرقہ واریت اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ملکی معاملات پر نظر رکھتا ہے اور خدا خوفی کے ساتھ معروضی حالات کا بے لاگ تجزیہ کرتا رہتا ہے۔ 
سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں لیکن بدقسمتی سے ایسے لوگوں سے اقتدار کے ایوان اس وقت تقریباً ویران نظر آئے جب قائد اعظم اللہ کو پیارے ہو گئے اور خان لیاقت علی خان ایک بے رحم قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ اس سانحہ کے بعد اقتدار کی ہما بہت سے ایسے سروں کی زینت بھی بنی جنہوں نے ملکی فلاح کیلئے بہت سارے کام کئے یا کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ اس میں سول اور عسکری حکام بھی شامل ہیں لیکن پاکستان معاشی خوشحالی کے اس مقام سے کوسوں دور رہا جہاں پر اس کو ہونا چاہئے تھا۔ اس کی بڑی وجوہات کچھ یوں تھیں۔ بہت سے رہنمائوں نے چور دروازے سے اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھا۔ اس پر طرہ یہ کہ انہوں نے اپنے آپ کو قائداعظم ثانی تصور کرتے ہوئے اپنے آپ کو ملک کیلئے ناگزیر تصور کیا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف انہوں نے اپنے اقتدار کو ناجائز طول دینے کیلئے ہر ناجائز حربہ استعمال کیا بلکہ کبھی بھی متبادل قیادت کو اپنی اپنی پارٹیوں میں ابھرنے نہیں دیا۔ وفاداروںکو ہماری تاریخ میں لائق ایمانداروں پر ہمیشہ فوقیت ملی رہی۔ پھر ایک اور بڑی لعنت یہ سوچ رہی کہ چونکہ پاکستان میں سیاست کرنے کیلئے جائز و ناجائز طریقوں سے دولت کے انبار لگانا ضروری ہے۔ اس لیے مالِ حرام کے حصول میں پیش پیش رہا جائے وزراء بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہے ۔بہت سارے سمگلر ، منشیات فروش اور ناجائز ذرائع سے پیسہ کمانے والے اپنی دولت کو چھپانے کیلئے بھی کروڑوں روپے دیکر اسمبلیوں اور سینٹ میں داخل ہوئے۔ چودھری ، اعوان ، گجر یا بھٹی ایماندار ہو یا بے ایمان ، اہل ہو یا نااہل ، ساری برادری نے اس کو ووٹ دینا ہے۔
قیادت کے بحران نے ابھی تک ہمیں اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت بھی اقتدار کے ایوانوں میں چور دروازے سے آئی ہے۔ عمران خان کی بائیس سالہ سیاسی تگ و دو قابلِ تعریف تھی۔ میں ان کی ہمت اور حوصلے کی بھی داد دیتا ہوں وہ اگر کچھ عرصہ اور اپوزیشن میں رہ کر اپنی مکمل تیاری کرتے اور فصلی بٹیروں کی بجائے قابل ، بے داغ ایماندار لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرتے تو پاکستان کیلئے یہ بہتر ہوتا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ ’راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے‘‘ پورا پارٹی کا منشور شیخ چلی کی کہانیاں ثابت ہوا۔ حکمرانی کا صفر تجربہ ، مردم شناسی کی صفت سے عاری ، ہر اپنے بتائے ہوئے اصول کی نفی ، پہلی معاشی ٹیم لگائی تو ہر ذی ہوش انسان نے بتایا کہ پاکستان جیسے ملک میں معیشت کو سنبھالنا ہر سیاستدان خواہ وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو کا کپ آف ٹی نہیں۔ اپنے دورِ حکومت کے قیمتی نو ماہ ضائع کرنے کے بعد اس ٹیم کو چھٹی کروا دی۔ پھر حفیظ شیخ صاحب آ گئے جن کو بین الاقوامی معیشت کا تو بہت ادراک ہو گا لیکن پاکستان کے مخصوص حالات کو سمجھنے اور اس کے مطابق معیشت کو چلانے کا پتہ نہ تھا۔ اس پر معاشی ماہرین نے ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اندر سے بھی لوگوں نے شور کیا۔ روپے کی فاسٹ ٹریک بے قدری ، شرح سود میں بے پناہ اضافے سے 13 فیصدی تک لے جانا، ہوشربا مہنگائی ، بے پناہ بے روزگاری ، گیس بجلی اور دوایوں کی قیمتوں میں ناقابلِ یقین اضافہ ، گردی قرضوں میں سو فیصدی سے بھی زیادہ اضافہ ، سٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے اداروں میں بہتری کی بجائے مزید تباہی ۔ اب تقریباً تین سالوں کی اس ناقابلِ یقین نااہلی کی داستان کے بعد جس میں لاکھوں لوگ خط غربت سے گر گئے۔ موجودہ وزیر خزانہ بھی فارغ۔ اب قلم دان میاں حماد کو تھما دیا گیا ہے جو ایک جواں ، ذہین ، سیاستدان تو ہے لیکن تجربہ کار معیشت دان بالکل نہیں۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے''There is no short cut to experience'' ہم دعا گو ہیں کہ اللہ کرے نئی معاشی ٹیم کامیاب ہو لیکن اس کا امکان اس لیے کم ہے کہ اب اس حکومت کے پاس وقت تھوڑا رہ گیا ہے اور قصور ان معاشی ٹیموں اور وزیروں کانہیں۔ قصور ان کی Appionting authority کا ہے جو آج بھی قائم و دائم ہے پاکستان کی معیشت کو اس حکومت کی آمد کی وجہ سے اتنا نقصان ہو چکا ہے جو پاکستان کی ہندوستان کے ساتھ تین جنگوں میں نہیں ہوا۔ گورنر سٹیٹ بینک ضرور ایک ایماندار اور اہل پاکستانی ہونا چاہئے۔ اس کے پاس فیصلے کرنے کے اختیارات اور اتنی جرأت بھی ہونی چاہئے کہ وہ حکومت کی غلط پالیسیوں کو غلط کہنے کی اخلاقی ہمت رکھتا ہو ، لیکن وہ IMF کی پے رول پر نہ ہو۔ دوسرا اس کے اوپر ایک زیرک سیاست دان ملک کا وزیر اعظم اور ایک بین الاقوامی شہرت کا حامل قابل اور دیسی وزیر خزانہ بھی ہو۔ جو دیانت داری سے سٹیٹ بنک کے گورنر کی Monitory پالیسیوں کو ملک کی Fiscal پالیسیوں کے ہم آہنگ رکھے۔ پارلیمنٹ میں بحث کی بجائے آرڈیننس کے ذریعے گورنر سٹیٹ بینک کو IMF کا پاکستان میں وائسرائے بنانے کا قانون ملک کے مفاد میں نہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کو چاہئے کہ ایسے اقدامات کی حوصلہ شکنی کریں ہم سب پاکستان سے محبت، آئین کی پاسداری اور پارلیمانی جمہوریت کی مضبوطی کی بات تو کرتے ہیں لیکن ہمارے ہی ہاتھوں سے دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان میں ایک سیاسی جماعت کی مضبوط حکومت اور ساری کابینہ ہوا میں معلق ہو گئی۔ سینٹ کے انتخابات میں پورے پاکستان بلکہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے اکثریت ہاری ہوئی قرار دی گئی اور اقلیت کامیاب۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم سب اپنے اپنے اقتدار اور مفادات کی خاطر تگ و دو کر رہے ہیں جمہوری و اخلاقی اقدار اور پارلیمانی روایات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ خدا گواہ ہے یہ ملک اور اس میں بسنے والی قوم اتنی بری نہیں۔ میں نے 1966ء سے اس ملک کے سارے سیاسی اتار چڑھائو دیکھے ہی نہیں بلکہ عملی طور پر سویلین اداروں کا سربراہ رہا اور جنگ بھی لڑی ہمارے لوگ بہت اچھے ہیں جو ملک سے بے پناہ محبت کرتے ہیں فرق صرف ایک ہے اور وہ ہے ایماندار لیکن اہل قیادت کا فقدان ۔ 

ای پیپر دی نیشن