سیاست کا نیا پس منظر کیا ہوگا؟

ایک طویل عرصے کے بعد پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور مقتدر حلقوں کے درمیان تعلقات کی وہ سطح بحال ہوگئی ہے جو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعدپاکستان کھپے کا نعرہ لگانے پر استوار ہوئی تھی ۔ تب غیبی طاقتوں نے مسند حکومت کیلئے آصف زرداری کو اُمیدوار کے طور پر منتخب کیا تھا خرمن کے خوشہ طینوں کو خبر ہو کہ غیبی طاقتوں نے پیپلز پارٹی پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور اس کا پہلا مظاہرہ          یوسف رضا گیلانی کے اپوزیشن لیڈر بننے پر سامنے آیا ۔ یوسف رضا گیلانی  کو غیبی طاقتوں کے اشار ے پر منتخب کیا گیا تھا۔ اہم ذرائع نے ہمیں بتایا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی یعنی با پ کے کئی ایم این ایز پر  مشتمل ایک بڑ احلقہ ٹوٹ کر پی پی میںضم ہوسکتا ہے ۔ اس سلسلے میں دوطرفہ معاملات طے ہوچکے ہیں ۔ بس امپائر کی سیٹی کا انتظار ہے ۔ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی جلد یا بدیر پی ڈی ایم سے الگ ہوجائے گی۔ زیادہ امکان ہے کہ پی ڈی ایم کو ایک سال مکمل ہونے پر یہ قدم اُٹھایا جائے گا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ گڈ جاب کے عوض زرداری کے تمام مقدمات کراچی منتقل کر دیئے جائیں گے اورمقدمات کی سماعت کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں نواز لیگ کے حصّے بخیے کرنے کیلئے یہ پلان تشکیل دیا گیا ہے اس میں سینٹ کے اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی بھی کردار ادا کریں گے ۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو اس عہدے پر لانے میں آصف علی زرداری زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ چلتے رہنے کے خواہشمند تھے تاکہ غیبی طاقتوں کے معاملات کیلئے ایک ہی بار گینگ پوزیشن مضبوط رہے ۔ لیکن گیلانی کا انتخاب غیبی طاقتوں کی ایماء پر ہوا کہ آنے والے وقتوں میںپنجاب میں نواز لیگ کو پیچھے دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ زرداری اب بڑی حد تک غیبی طاقتوں کی ڈور سے بندھ چکے ہیں ۔ انہیں اشارہ دیا گیا ہے کہ اگلا الیکشن جیتنے میں ان کی مدد کی جاسکتی ہے ۔اگر تب تک معاملات ویسے ہی چلتے رہے جیسے کہ غیبی طاقتیں چاہتی ہیں ۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ موجود ہ حکومت کی مدت کے اختتام پر اگلے الیکشن کا ڈول ڈالا جائے گااور اس میںایک ایسے اتحاد کو حکمرانی کا حق سونپا جاسکتا ہے جس میں مرکزی کردار پیپلز پارٹی کا ہو اسی لیے اگلے وزیرا عظم کے طور پر راجہ پرویز اشرف اور قمر الزمان کائرہ کے نام زیر غور ہیں ۔فی الحال کائرہ زیادہ فیورٹ ہیں جو پی پی پنجاب کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معتدل مزاج رہنما کی شہرت بھی رکھتے ہیں ۔ذرائع کے بقول فی الحال شہباز شریف والا آپشن ترک کردیا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے بھائی کا ساتھ چھوڑ نے پر تیار نہیں ہیں اور یہ کہ اس سلسلے میں کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں ہیں ۔ ذرائع کے مطابق اس حکومت کو مزید پانچ برس کیلئے اقتدار میں لانے کا منصوبہ بھی فی الحال ترک کردیا گیا ہے کیونکہ پچھلے چالیس سال میں مقتدر حلقوں کی اتنی بدنامی نہیں ہوئی جتنی اس حکومت کے باعث ہوئی ہے ۔ذرائع کے بقول پنجاب میں نوا زلیگ کو پیچھے دھکیلنے کیلئے (ق)لیگ اور پی پی مل کر کام کریں گی ۔ جبکہ پی ٹی آئی اور صوبائی حکومت پنجاب سہولت کار کا کردار ادا کرے گی ۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ مسلسل کوششوں کے باوجود نواز لیگ کے ایم این اے توڑنے میں ناکامی کی کھوج کی گئی تو پتہ چلا کہ ارکان اسمبلی مرکز اور پنجاب حکومت کی کارکردگی سے مشتعل عوام کی مرضی کے خلاف جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے ۔ وہ بھی پی ٹی آئی جیسی جماعت میں شمولیت کی صورت میں جو براہِ راست ان زخموں کی ذمہ دار ہے ۔ چنانچہ ان ارکان اسمبلی کو پی ٹی آئی کی بجائے (ق)لیگ اور پی پی کی صورت میں متبادل پلیٹ فارم دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو عوام کیلئے نسبتاً زیادہ قابل قبول پارٹیاں ہیں اور ان میں شمولیت سے نواز لیگ کے ارکان اسمبلی کو عوامی اشتعال کاسامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا ۔ اس کیلئے پنجاب میں پی پی اور (ق)لیگ کی جگہ بنانے کا ٹارگٹ آصف علی زرداری اور چوہدری پرویز الٰہی مشترکہ طور پر حاصل کریںگے بشرطیکہ زرداری نے پرویز الٰہی کے ساتھ کوئی بڑا ہاتھ نہ کردیا ۔ ذرائع کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی یلغار توڑنے کے بعد اب  نوا ز لیگ کو تنہا کرنے کی جوابی یلغار شروع ہونے والی ہے ۔ جلد ہی پنجاب میں نیا میدان ِ جنگ سجے گا جس میں مرکزی حکومت بھی خاموش کردار ادا کرے گی ۔ ذرائع کے مطابق اس پس ِ منظر سے نمٹنے کیلئے نواز لیگ ، جے یو آئی پر زیادہ انحصار کررہی ہے کیونکہ اے این پی عملاً زرداری کے ساتھ کھڑ ی ہے تاہم ذرائع کے بقول مولانا فضل الرحمن کو نواز شریف سے علیحدہ کرنے کی نئی کوششیں اب زرداری اور پرویز الٰہی کریں گے یہ کوششیں رنگ لے آئیں تو  نواز لیگ تنہا ہوجائے گی اور اسے دیوار سے لگانے اور اس کے بندے توڑنے کے اگلے مرحلے کا آغاز ہوجائے گا۔ ذرائع کے دعویٰ ہے کہ اس سارے کھیل میں بھرپور سیاسی فائدہ اُٹھانے والے آصف علی زرداری نے نہ صرف نواز شریف سے پرانے بدلے چکا دیئے بلکہ آگے کیلئے اپنے بیٹے کی راہ سے کانٹے بھی ہٹادیئے ۔ زرداری مقتدر حلقوں کی آشیر باد تب تک حاصل کرنا چاہتے ہیں جب تک شریف خاندان کے بارے میں مقتدر حلقوں کی رائے تبدیل نہیں ہوجاتی اور اس تبدیلی کا امکان اگلے برسوں میں نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ادارے میں بطور پالیسی نوا ز شریف مریم نواز کو ریاست کے مفادات کیلئے غیر موزوں قرار دے رکھا ہے ۔ ذرائع کے بقول مولانا کو بھی نئی صورتحال کا ادراک ہوچلاہے ۔  اس لیے اتنی جلدی پینترا نہیں بدلیں گے تاہم زرداری کی دوستی کو بھی وہ چھوڑنا نہیں چاہتے کہ اس کے ذریعے طاقت کے اس کھیل کے اگلے مرحلے میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں ۔ ذرائع کے بقول زرداری اور غیبی طاقتوں میں مراسم جوں جوں بہتر ہوتے جائیں گے توں توں زرداری کو مولانا کی ضرورت پڑتی جائے گی کہ مستقبل کی حکومت بنانے کیلئے مولانا کا تعاون حاصل کرنا زرداری کی بڑی کامیابی ہوگی ۔ ایسی کامیابی جسے غیبی طاقتوں کی جانب سے سراہا بھی جائے گا اور انعام بھی ملے گا تو زیادہ امکان یہی ہے کہ ہارے ہوئے فریق کے ساتھ جانے کی بجائے مولانا کسی خوبصورت چورنگی سے موڑ کاٹ کر جیتے ہوئے فریق کے ٹرک میں سوار ہوجائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن