لاک ڈائون میں فیس…اسکول انتظامیہ کا موقف

آج کل ایک بحث چل رہی ہے کہ لاک ڈائون میں جب اسکول بند ہیں توپھر نجی اسکولوں کو  فیسیں دینا بھی بند ہونا چائییں…اس دلیل میں کچھ  الجھنیںدرپیش ہیں مثلاََ یہ کہ کیا لاک ڈائون کے دوران  ایسے اسکولوں کے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہیں بند کر دینا چائییں ؟   اکثر نجی اسکول کرائے کی عمارتوں میں ہیں،  کیا اِن کا کرایہ  لاک ڈائون کے دوران دینا موقوف کر دیا جانا چاہیے؟  ایسے تقریباََ  سب ہی اسکولوں کی بجلی اور سوئی گیس کمرشل میٹروں پر ہے کیا اِن کے بِل  دینا بند کر دینا چائییں؟  لاک ڈائون کے دوران پانی کے بلِ کی ادائیگی کرنا چاہیے یا نہیں ؟  اس  پس منظر میں ایک   پرانے دوست سے کل تفصیلی نشست ہوئی۔ یہ حضرت راولپنڈی میں نجی اسکول کے ایک گروپ میں شراکت دار ہیں اور انتظامی امور میں بہت فعال ہیں۔انہوں نے بتایا کہ فیسیں نہیں دینے کا مطالبہ اُن اسکولوں کے لئے ہے جو  لاک ڈائون کے دوران اپنے ٹیچروں کو تنخواہیں نہیں دیتے ۔یہ کالی بھیڑیں ہیں جو بد قسمتی سے ہمارے ملک کے تمام ہی شعبوں میں نظر آتی ہیں۔کام نہ کرنے کے سو  بہانے … اب  لاک ڈائون ہو گیا تو یہ نہیں کر سکتے،  وہ نہیں ہو سکتا وغیرہ محض بہانے ہیں۔ کرونا  سے  جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی نے پیسے بچائے وہاں کئی اسکول والوں نے بھی یہی کام کیا۔لیکن ایسے اسکولوں کی تعداد کم ہے۔ اکثر اسکول اپنے ٹیچروں کو تنخواہیں دیتے ہیں۔اس کے علاوہ غیر تدریسی عملہ بھی ہوتا ہے۔ اِس کے بغیر تو اسکول ہی نہیں چل سکتا۔ایک اسکول میں کم از کم  صفائی کا عملہ،  آیا،  گارڈ،  آفس بوائے تو درکار ہوتے ہی ہیں۔اس کے بعد بجلی اور سوئی گیس کے کمرشل بل اور  پانی کے بل وغیرہ۔ لاک ڈائون کی وجہ سے لوگوں نے اسکولوں کی فیسیں نہیں دیں ۔پچیس دن ایک دفعہ لاک ڈائون ہوا  تو انیس دن دوسری مرتبہ۔ ہمارے اسکولوں میں تین سو طلباء ہیں جنہوں نے اسکولوں کی چھ اور سات ماہ کی فیس نہیں دی۔ ڈھائی سو ایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ مارچ کا سالانہ فنڈ نہیں دیا حالاں کہ اُس کا ایک بڑا  حصّہ اُن بچوں پر استعمال بھی کیا گیا ۔ اِسی  فنڈسے بچوں کے آن لائن امتحانات لئے گئے،  فوٹو کاپیاں کروائی گئیں۔ اسکول کے  فوٹو کاپی اخراجات  کورونا کے لاک ڈائون کی وجہ سے دوگنے ہو گئے۔   جہاں ایک کاپی استعمال ہوتی تھی وہاں دو  کاپیاں لگیں۔ ہمارے ہاں بچوں کو ڈائری اور  کاپیاں اسی فنڈ سے ملتی ہیں جب کہ  پورے راولپنڈی اسلام آباد کے اسکول ،  بچوں کو  ستّر روپے کی کاپی  دو  سو  روپے میں فروخت کرتے  ہیں۔ اسکول کی تقریبات میں،  اُن کو  تحائف ،  انعامات،  سرٹیفیکیٹ ،  شیلڈ،  میڈل  اور کَپ ملتے ہیں۔ یہ سب اخراجات بچوں کے اسی فنڈ سے ادا کئے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ ہم بچوں سے ایک روپیہ بھی نہیں لیتے۔بچہ کسی بھی اسکول کا ہو  وہ  آن لائن پڑھ سکتا ہے لیکن والدین کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایسا نہ ہو … دیکھیں نا  !!  ماں کو بچے کے لئے صبح اُٹھنا پڑتا ہے۔رات والے ڈرامے جو  رہ گئے ہیں وہ انہیں بھی دیکھنا چاہتی ہے۔وہ چاہتی ہے بچے کو اسکول بھیج کر سو جائوں۔پھر گیارہ  بجے اٹھوں تو  رہ جانے والے ٹی وی ڈرامے پورے کر لوں !!   بچہ اسکول سے آئے تو کھانا کھلا کر ٹیوشن بھیج کر پھر سو جائوں ۔اس طرح سے کام نہیں چلے گا …  پچھلے لاک ڈائون میں ماں باپ اسکول کے حرج کو معمولی سمجھ رہے تھے لیکن اب وہ ایسا خیال نہیں کرتے بلکہ سنجیدگی سے بچوں کو پڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے اسکولوں کے وہ دس  فی صد بچے جنہوں نے فیسیں نہیں دی تھیں اور کام نہیں کیا تھا اُن کے ماں باپ اب  اپنی غلطی کا احساس کر رہے ہیں کیوں کہ ان بچوں نے امتحانات میں کارکردگی اچھی نہیں دکھائی۔بچہ ماں سے آن لائن پڑھائی کے لئے موبائل مانگ رہا ہے۔ وہ کہہ رہی ہے:  ’’  ہمیں تنگ نہ کرو  !!  میری بہن کا فون آنا ہے۔میں نے فلاں سے بات کرنا ہے۔ دبئی سے میرے بھائی کا فون آنے والا ہے  ‘‘۔یا  ’’  میری  ’  فیس بُک  ‘  خراب نہ ہو ۔میرے وہاٹس  ایپ پر آنے والے پیغامات تعطل کا شکار نہ ہوں۔چلو تمہیں نیا موبائل لے دیتے ہیں  ‘‘۔پھر ماں باپ بچوں کو موبائل دے کر بری الزماں ہو جاتے ہیں  !!    اسکول ٹیچر نے انٹر نیٹ پر  دس  پندرہ منٹ دورانیہ  کا کام دیا ہوتا ہے۔بچے کو اس عرصہ میں کام وہاں سے اتارنا ہو تا ہے پھر تو  انٹر نیٹ کا کام ختم ہے۔لیکن وہ  بچہ  اس کے بعد  ’  انسٹاگرام  ‘ ،  ’  فیس بُک   ‘  استعمال کر رہا ہے۔ یو ٹیوب پر کیا دیکھ رہا ہے ؟  آپ کو پتا ہی نہیں  !!  ماں کی عدم توجہ سے اس بچے نے یہ کام شروع کیا۔ ماں باپ نے  ذمہ داری کو اپنے سر سے اتار دیا کہ ہماری جان چھوٹ جائے۔ بات ہو رہی تھی فیسوں کے لینے یا نہ لینے کی۔اِن صاحب نے بتایا کہ یہ بات وہ لوگ کر رہے ہیں جو اپنے بچوں کو پڑھانا بھی نہیں چاہتے اور  دلیل دیتے ہیں کہ چوں کہ کرونا  میں بچے نے پڑھا نہیں اس لئے بچے کو بغیر امتحان اگلی جماعت میں بٹھایا جائے۔ بچے نے اپنی جماعت کے دوسرے بچوں کی طرح آن لائن کلاسیں نہیں لیں،  امتحانات نہیں دیے  تو  اگلی جماعت میں ترقی کیسے دے دیں ؟  ہم نے ایک دن رکھا ہوا ہے کہ آپ بچوں کے لئے کاپیاں لے لیں۔ اب پانچ فی صد ( ڈھائی سو  طلباء )  ایسے ہیں جو کاپیاں نہیں لے کر گئے۔ ہم انہیں فون کر رہے ہیں کہ جناب آئیے اور بچوں کی کاپیاں لے کر جائیں اور بچوں کو پڑھائیں۔ اب والدین خود ہی اپنے بچے کی پڑھائی پر توجہ نہیں دینا چاہتے ۔سب کچھ اسکول پر تو نہیں ڈالیں !!  کہ وہ تو ٹیچر کا کام ہے ۔ماں باپ بھی تو بچے کی پرور ش کریں ؟  پورے سات ماہ اسکول بند رہے۔ ان سات ماہ لوگوں نے کوشش کی کہ ہم اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں ہو آئیں۔ جس طرح  بلّی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے  بعینٖہ والدین نے بچوں کی پڑھائی کی ذمہ داری سے آنکھیں بند کر لیں۔ اب جب وہ بچے فیل ہوئے تو یہ لوگ پچھتا رہے ہیں۔اسکول کھلنے کے بعد ہم نے ڈھائی ماہ بچوں کو پڑھایا تھا کہ  پھر دوبارہ لاک ڈائون ہو گیا۔اِن  ڈھائی ماہ میں وہ بچے جو ہمارے اسکول سے منسلک تھے ان کی کارکردگی بہت بہتر رہی بمقابلہ  اُن بچوں کے جنہوں  نے چھٹیوں / لاک ڈائون  میں کام ہی نہیں کیا۔سوال ہے کہ  اب حل کیا ہو ؟  حل یہ ہے کہ  والدین اپنے بچوں پر توجہ دیں ۔ تعلیم ایک  مثلث  ہے:  اسکول،  ٹیچر  اور  والدین۔جب تک بچوں کے سرپرست ہمارے ساتھ براہِ راست رابطے میں نہیں رہیں گے تب تک بات نہیں بن سکتی۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم فیس نہ دیں اور اسکول والے ہمارے بچے کو پڑھاتے رہیں۔ اس مرتبہ تو ولدین بھی اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ  اب بھی پانچ فیصد ایسے لوگ ہیں جو  کورونا  کی آڑ لے کر وہی پرانا حربہ آزما رہے ہیں کہ  اسکول والے بغیر فیسوں کے پڑھائیں۔فیسیں نہیں لی جائیں تو ٹیچروں کو تنخواہیں کس طرح ادا کی جائیں گی ؟ کبھی یہ  انہوں نے سوچا ؟  آخر ٹیچر بھی انسان ہیں اُن کے بھی گھر ہیں۔ جب اسکول والے  دیر سے تنخواہیں دیں گے  تو وہ بے چارے کیا کریں گے۔ہماری تو  کوشش ہوتی ہے کہ  سب سے پہلے  تنخوائیں ادا کی جائیں۔ ہمارے اسکولوں کا سات سات ماہ سے کرایہ  ادا  نہ  ہو سکا تھا۔ہم نے اِن دو  ڈھائی ماہ میں تمام  واجب الادا  کرایہ اتارنے کی پوری کوشش کی لیکن اب بھی ایک عمارت کا پانچ ماہ کا کرایہ باقی ہے۔ ہمارے اسکولوں کے تمام ہی مالک مکانوں نے ہم کو  پانچ ماہ  کورونا  لاک ڈائون کے دورا ن کرایہ میں بیس فی صد چھوٹ دی۔ہم اس رعایت پر اُن کے مشکور ہیں۔ ویسے یہ بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ راولپنڈی میں ڈھائی سو  اسکول لاک ڈائون کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک اسکول کا ٹیچر خوش حال نہیں ہو گا  اسکول مالک بھی خوش حال نہیں ہو گا۔ اگر آپ کا ٹیچر اور دیگر اسکول اسٹاف خوش ہے تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ آپ ڈوب جائیں  !!   یا آپ کا اسکول بند ہو جائے۔ ہمارے نبیﷺ نے بھی کہا  کہ اپنے ماتحت کا خیال رکھو  !!  یہ بالکل صحیح ہے۔ بھلا یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ بحیثیت اسکول مالک میں تو عیاشی کروں اور اسکول کے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہیں روک لوں۔ آخر میں موصوف نے کہا کہ جب تک والدین بچوں پر توجہ نہیں دیں گے تب تک بات نہیں بن سکتی۔نیز یہ بھی کہ میرے اندازے کے مطابق جب انشاء اللہ پاکستان میں حالات پُر سکون ہو جائیں گے تب بھی ان بچوں کی تعلیمی ریل گاڑی کو پٹری پر  درست رفتار سے چلنے میں دو سے تین سال لگ جائیں گے۔      

ای پیپر دی نیشن