جنوبی پنجاب محاذ پھر سے؟ 

Apr 02, 2021

ملک عاصم ڈوگر …منقلب

جنوبی پنجاب کو پاکستان کی سیاست میں سوئنگ اسٹیٹ کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کی مرکز اور پنجاب میں حکومت بننا جنوبی پنجاب کی وجہ ممکن ہو سکا۔ اسکی بڑی وجہ مسلم لیگ ن کی شہباز حکومت کی جانب سے مسلسل دس برس تک جنوبی اضلاع کو نظر انداز کرنے کی حکمت عملی تھی۔ لاہور اور سنٹرل پنجاب میں تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں کے برعکس جنوبی اضلاع ملتان ، ڈیرہ ڈغازیخان اور بہاولپور کے علاقوں کو محروم رکھا گیا۔ عین 2018 کے انتخابات سے ایک ماہ قبل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے الیکٹ ایبلز کو ملا کر جنوبی پنجاب محاذ کے نام سے ایک نیا سیاسی فرنٹ تشکیل دیا گیا۔ ان علاقوں میں پہلے سے موجود احساس محرومی کو مزید تقویت دی گئی۔ اس محاذ میں شامل تمام بڑے نا م وہی تھے جو پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن اور ق لیگ کی ٹکٹوں پر منتخب ہوتے آئے ہیں۔ ان میں اکثریت جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں ، سرداروں اور گدی نشینوں پر مشتمل ہے۔ سیاست کے یہ کھلاڑی مخصوص پس منظر اور مفاداتی سوچ کے ساتھ مقتدرہ کیلئے بڑے سود مند ثابت ہوتے رہے ہیں۔ آئینی اور قانونی اعتبار سے پنجاب ابھی تک ایک صوبہ ہے لیکن عوامی تصورات میں جنوبی پنجاب ایک الگ حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ جنوبی پنجاب محاذکے تحریک انصاف میں ادغام کے موقع پر یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ پہلے 100 دنوں میں جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے اقدامات شروع کر دئیے جائیں گے۔ لیکن ایک برس گزر جانے کے باوجود کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا۔ بعد ازاں میڈیا اور عوام کے دباؤ پر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا ڈول ڈالا گیا لیکن عملی طور لاہور ہی تمام تر معاملات مختار کل رہا۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ایک انتظامی کوشش تھی جو کہ سیاسی شراکت داری کے بغیر مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب جن کا تعلق جنوبی پنجاب کے سب سے پسماندہ علاقے سے بتایا جاتا ہے۔ نہیں چاہتے تھے کہ انکی "عملداری "صرف سنٹرل اور اپَر پنجاب تک محدود رہے۔ لہٰذا خود صوبائی حکومت کی جانب سے بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا۔ اب جبکہ جنوبی پنجاب کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار فرماتے ہیں کہ جنوبی پنجاب انکے ایجنڈے پر ہے۔ مخالفین بلاوجہ خبریں پھیلا رہے ہیں۔ اب کوئی پوچھے حضور والا کیا نوٹیفکیشن مخالفین کے کہنے پر واپس لیا گیا ہے۔ خیر اسکے پیچھے جو بھی سیاسی وجوہات ہوں یہ تو طے ہے کہ اب ایک بار پھر جنوبی پنجاب کا محاذ پھر سے کھولے جانے کی تیاریوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے بھی نظر انداز کئے جانے اور وعدے پورے نہ کر سکنے کی بنیاد پر اس محاذ کو دوبار ہ زندہ کیا جائیگا۔ اس محاذ کے مدار المہام پھر سے وہی لوگ ہونگے جو پہلے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن ، ق لیگ اور ایک اضافے کے ساتھ تحریک انصاف کے جھنڈے تلے ووٹ لے کر اعلیٰ ایوانوں تک پہنچتے رہے ہیں۔ لیکن اس علاقے کی محرومی جوں کی توں برقرار ہے۔ بے حد غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے اکثریتی عوام بڑے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔  زرعی شعبے میں جزوی اصلاحات کا عمل شروع ہوا تھا جو کہ اب اس فیصلے کے بعد دم توڑ جائیگا۔ جنوبی پنجاب کے لوگ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سے مایوس ہو چکے تھے۔ نئے صوبے اور ترقی میں برابر حصہ ملنے کے وعدے پرتحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا۔ تحریک انصاف بھی کوئی وعدہ پورا نہیں کر سکی۔ صرف جنوبی پنجاب ہی نہیں بلکہ پوری حکومت 31 ماہ گزرجانے کے باوجود قوم سے کیا گیا اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کر سکی۔سابق حکمرانوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانا تو درکنار انہی کے ساتھ مل کر پنجاب میں سینیٹ الیکشن سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔ عوام کو گندم ، چینی اور پیٹرول کی مد میں اربوں کا چونا لگانے والے مافیاز پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں والی کہانی تو پرانی ہو چکی ہے اب اسے کیا دہرانا۔ پیپلزپارٹی پچھلے 8 برسوں سے پنجاب میں دوبارہ قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 
آصف زرداری نے مسلم لیگ ق کو ملا کر مسلم لیگ ن کو آفر کی تھی کہ آئیں پنجاب میں تبدیلی لاتے ہیں۔جس میں لیڈنگ رول ق لیگ کو دیا جائے۔ مسلم لیگ ن نے آصف زرادی کے ارادے کو بھانپتے ہوئے یہ تجویز رد کر دی۔ ن لیگ کو کھلاڑی وزیر اعلیٰ کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے اناڑی وزیر اعلیٰ کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھناقابل قبول ہے۔ اب جنوبی پنجاب کا اسٹیٹس ختم ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کی امیدیں پھرجاگ اٹھی ہیں۔ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی نے رابطے اور تنظیم سازی کا عمل تیز کر دیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں عمومی طور پر پیپلزپارٹی کیلئے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ طاقتور حلقے جنوبی پنجاب کو سوئنگ اسٹیٹ کے طور پر ایک بار پھر استعمال کرنا چاہیں گے۔ جنوبی پنجاب محاذ کو نئے اندازسے زندہ کیا جاسکتا ہے۔پی ڈی ایم کی ناکامی اور سینیٹ میں آصف زرداری کی خدمات کے عوض الیکٹ ایبلز کوپیپلزپارٹی کی جھولی میں ڈال دیا جائے۔اگر ایسا ہوا تو 2023 میں ممکنہ طور پر مرکز اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنانے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ سندھ میں تو بھٹو پہلے ہی زندہ ہے۔ 

مزیدخبریں