لاہور اسلام آباد (نیوز رپورٹر+ خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ اجلاس میں آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور رہنما¶ں نے شرکت کی۔ قائدین نے ملک کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی غور کیا اور مستقبل کی حکمت عملی پر مشاورت کی ۔اجلاس کے احتتام پرجاری اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات ہونے چاہئیں انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کر دے گا یہ غیر جانبدارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے۔ ایک ہی دن میں الیکشن سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کر دے گا یہ صورتحال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہو گی حکومت اور اتحادی جماعتوں نے تین رکنی بنچ پر عدم اعتماد کرتے کہا کہ چار رکنی اکثریت فیصلے کو جانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ سیاسی و آئینی بحران پیدا کرنے کی سازش قبول نہیں کی جائے، جسٹس اعجاز الاحسن کو پہلے ہی رضاکارانہ طور پر بنچ سے الگ ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نتیجہ سے اٹھنے والی اخلاقی آوازوں کو نہیں چیف جسٹس فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کرے، ون مین شو کا تاثر ختم کریں ۔ تین رکن بنچ کے ذریعے آئین کو ری رائیٹ کیا گیا، اعلیٰ ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آ رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کو متنازع سیاسی فصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنچ نے 184 تھری کے تمام مقدمات روکنے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بنچ کے فیصلے کا احترام کرنا سب پر لازم ہے۔ بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی و آئینی بحران بنا دیا گیا، معاشی، سکیورٹی، آئینی، قانونی، سیاسی امور کو نظر انداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی ہے۔ خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے، یہ آئین و قانون اور الیکشن کمشن کے اختیار سے بھی منافی ہے۔ آرٹیکل 218 (3) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت الیکشن کرنا الیکشن کمشن کا اختیار ہے سپریم کورٹ کو خود مختار الیکشن کمشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے اجلاس چیف جسٹس سربراہی میں تین رکن بنچ پر عدم اعتماد کرتا ہے یہ طرز عمل ملک میں آئین سے انحراف کی واضح مثال ہے یہ عمل ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان بار کونسل کی طرف سے آرٹیکل 209 کے تحت دائر ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ اجلاس نے پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ اس قانون سازی سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردی گئی ہیں۔ پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے۔اجلاس نے ا میدظاہر کی کہ صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ اجلاس میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، امین الحق،بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل، ہاشم نوتیزئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،محمد طاہر بزنجو،پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، شفیق ترین، اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی ، میاں افتخار حسین ، باپ کے ڈاکٹر خالد مگسی،مسلم لیگ ق چوہدری سالک حسین،طاہر بشیر چیمہ،جمہوری وطن پارٹی کے نوابزادہ شاہ زین بگٹی،قومی وطن پارٹی کےآفتاب احمد شیرپاو¿،مسلم لیگ ن کے خواجہ محمد آصف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی،سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق،رانا ثنائ اللہ،رانا تنویر حسین، مریم اورنگزیب،ملک محمد احمد خان، عطائ اللہ تارڑ، علامہ ساجد میر،اسلم بھوتانی،جمیعت علمائ اسلام ف کے مولانا عبدالغفور حیدری، شاہ اویس نورانی،کامران مرتضی، محسن داوڑ،پیپلز پارٹی کےفاروق ایچ نائیک، مرتضیٰ وہاب، شیراز راجپر شریک ہوئے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی کے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین سے متعلق از خود نوٹس زیر سماعت ہے۔ انتخاب سے متعلق جو پہلا بینچ بنا تھا وہ 9 ممبران پر مشتمل تھا۔ نو اراکین پر مشتمل بنچ تین ممبرانِ کا رہ گیا، جج صاحبان کی علیحدگی کے بعد فیصہ از خود نوٹس کے خلاف ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس صاحب بضد ہے کہ اس کیس کو ہر قیمت پر سننا ہے ایسی صورت حال میں سیاستدان ، پارلیمنٹ اور عوام کیا رائے قائم کرے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری نظر میں سپریم کورٹ اور موجودہ بنچ اس کیس میں واضح طور پر فریق کا کردار آدا کر رہا، دو صوبوں میں انتخابات سے متعلق فریق کے کردار کے بعد ظاہر ہے ہمیں اس عدالت پر کوئی اعتماد نہیں رہا، مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس صاحب ہو یا انکے ساتھ شریک دو معزز جج صاحبان کی جانبدارانہ روش نے سپریم کورٹ کو تقسیم کردیا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ عدالت عظمی پاکستان کا انتہائی قابل قدر اور بلند رتبہ ادارہ ہے، چند ججز واضح طور پر عمران خان کو ریلیف دینا چاہتے ہے۔ ان کی پارٹی کے موقف کو ہر قیمت میں جتوانا چاہتے ہےایسی صورت میں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنا گوارہ کیا ہے، لیکن جس کو سپورٹ کر رہے اس سے دستبردار نہیں ہورہے، اخلاقی طور پر چیف جسٹس کو اور ان کے دو رفقا کو اس کیس سے دستبردار ہو جانا چاہئے اور اس معاملہ کو ختم کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس ہمیں نصیحت کر رہے کہ اس معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئے اور خود چیف صاحب نے معزز عدالت کو تقسیم کر دیا ہے، ہم کس کے ساتھ بات کریں، ایک مجرم کے ساتھ جس کو دھاندلی کے ذریعے لایا گیا تھے ہم نے پندرہ ملین مارچ کئیے آزادی مارچ کیلئے اس وقت آپکو احساس نہیں ہوا آپ نے از خود نوٹس کیوں نہیں لیا۔ 25 جولائی کی دھاندلی کے دو مرکزی مجرم آج بھی کھلے عام گھوم رہے۔ آج بھی انکے خلاف اپ کوئی نوٹس نہیں لے رہے ، مولانا فضل الرحمان نے کہ اہے کہ صوبوں میں انتخابات کروانا یا ملک میں انتخابات کروانا الیکشن کمشن کا کام ہے، کس طرح اپ کسی ادارے کے انتظامی اختیار پر قبضہ کر رہے از خود نوٹس کیس چار اور تین سے مسترد ہوچکا ہے لہذا اس پر اب دوبارہ سماعت کی کوئی حیثیت نہیں رہی، ہم اس بنچ پر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر عدم اعتماد کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آج کہا جا رہا آئین کا تقاضا ہے کہ نوے دن میں انتخابات کروائے جائیں یہ آئین کا تقاضا اس وقت کیوں نہیں تھا جب یہ عدالت ایک آمر پرویز مشرف کو تین سال میں الیکشن کروانے کی اجازت دے رہا تھا اس وقت ملک میں مردم شماری ہورہی ہے۔ کچھ ماہ بعد نیا حلقہ بنایا، نئی ووٹر لسٹ اور نیا بننے والا ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے گا۔ سیاسی لحاظ سے ملک کو ایک رکھنے کیلئے سن سنتالیس سے پاکستان میں الیکشن ایک دن میں ہوتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے، فریق بن کر کردار نہ ادا کیا جائے، سپریم کورٹ کو متحد رہنے دیا جائے، سپریم کورٹ کو غیر جانبدار رہنے دیا جائے، ہم عمران خان کے ساتھ الیکشن کی تاریخ سے متعلق کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے نہ ہی ہم کسی مجرم کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔
لندن (عارف چودھری) وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں پنجاب اور خیبر پی کے میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے سپریم کورٹ کے بینچ اور ملکی سیاسی صورت حال پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم شہبازشریف نے دو صوبوں میں انتخابات ملتوی کرنے پر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کی مجوزہ سماعت کے معاملے پر حکومتی تعاون سے متعلق مشورے کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف سے رابطہ کیا۔نواز شریف نے کہا کہ دو جج وہ ہیں جنہوں نے میرے خلاف فیصلہ دیا، بینچ ہی قبول نہیں تو فیصلہ کیسے قبول ہوگا؟پنجاب، کے پی انتخابات التواکیس میں سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔ نوازشریف نے مشورہ دیا کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو 3 رکنی بینچ کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، 3رکنی بینچ سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے کیونکہ 3 رکنی بینچ میں ثاقب نثار زدہ لوگ شامل ہیں۔اجلاس میں مشاورتی گفتگو کے دوران یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہو کر3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کریں، اٹارنی جنرل کارروائی کے بائیکاٹ سے مطلع کر دیں۔نواز شریف کا کہنا تھا بینچ کے بائیکاٹ کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے، سیاسی قیادت کے اکثریت کے مطالبے کے باوجود فل بینچ کا نہ بننا خاص ایجنڈے کی نشاندہی ہے۔