کراچی کے علاقے سائٹ ایریا نورس چورنگی پر ڈائنگ فیکٹری کیجانب سے راشن کی تقسیم کے دوران بھگڈر مچنے سے خواتین اور بچوں سمیت 11 افراد جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ زکوۃ کی رقم اور راشن کی تقسیم کیلئے لوگوں کو فیکٹری میں بلایا گیا تھا۔ راشن کی تقسیم کے دوران لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ وہاں کرنٹ لگنے کی وجہ سے بھگدڑ مچی۔ایس ایس پی کیماڑی کا کہنا ہے فیکٹری انتظامیہ نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو مفت راشن کی فراہمی سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ فیکٹری منیجر سمیت 7 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے راشن کی تقسیم میں بھگدڑ کے واقعے کا نوٹس لے لیا۔
بدترین مہنگائی کے ہاتھوں عوام اس قدر عاجز آچکے ہیں کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مفت آٹے اور راشن کے حصول کی صورت میں انہیں جہاں سے تھوڑا سا بھی ریلیف ملتا دکھائی دیتا ہے‘ وہ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیراس طرف دوڑ پڑتے۔ ایک زرعی ملک جو گندم کی پیداوار میں دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے‘ وہاں آٹے جیسی بنیادی چیز کیلئے عوام کا لائن میں لگنا اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا سابقہ اور موجودہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بے شک وزیراعظم شہباز شریف نے نیک نیتی سے ہی عوام کو ریلیف دینے کیلئے مفت آٹے کی فراہمی کا فیصلہ کیا تھا مگر انتظامی غفلت کے باعث جو بدنظمی دیکھنے میں آرہی ہے جس میں لوگوں کی جانیں بھی جا رہی ہیں‘ اس کا سخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ کراچی میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران گیارہ ہلاکتیں انتہائی افسوسناک ہے۔ اگر فیکٹری انتظامیہ کی جانب سے تقسیم سے قبل مؤثر پلاننگ کرلی جاتی یا پولیس کی مدد لے لی جاتی تو ہلاکتوں کی نوبت ہی نہ آتی۔ اگر اب بھی انتظامی امور میں بہتری نہیں لائی جاتی اور ہلاکوں کا خدشہ باقی رہتا ہے تو بہتر ہے یہ سلسلہ فوری بند کر دیا جائے یا مفت آٹے کا حصول عام دکانوں کے ذریعے آسان بنا دیا جائے تو عوام کو تذلیل سے بھی بچایا جا سکتا ہے اور بدنظمی کے باعث ہلاکتوں سے بھی۔