سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلی کے انتخابات کے التواء کیخلاف پی ٹی آئی عہدیداروں کی درخواست کی سماعت کے دوران جمعۃ المبارک کے روز وفاقی حکومت اور پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری دفاع اور وفاقی سیکرٹری خزانہ کو پیر کے روز عدالت میں طلب کرلیا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال‘ مسٹر جسٹس اعجازالحسن اور مسٹر جسٹس منیب اختر پر مشتمل فل بنچ کے روبرو اس کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس نے فرطِ جذبات سے لبریز ہو کر ریمارکس دیئے کہ بعض اہم عہدوں والے عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگر انکے برادر ججوں کے بارے میں بات کی جائیگی تو وہ جذباتی ہونگے اور ججوں کے دفاع میں آگے آئینگے۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ اگر انتخابات کے انعقاد کیلئے فنڈز کی ضرورت ہوئی تو وہ اس کا حکم دینگے اور افواج پاکستان کو بلانا پڑا تو بلائیں گے۔ کل اور آج دو ججوں نے سماعت سے معذرت کی۔ باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی ہوئی اور کچھ نکات پر ہماری گفتگو ضروری ہے۔ سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر میڈیا اور پریس کانفرنسز کرنیوالوں نے تیل ڈالا مگر عدالت نے ان سارے معاملات پر تحمل سے کام لیا۔ فاضل چیف جسٹس کے بقول کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کر رہے ہیں‘ کچھ دوسرے ججوں پر تنقید کر رہے ہیں۔ ہم اس معاملہ کو بھی دیکھیں گے۔ معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی۔ میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کر دیتے ہیں۔ عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ وہ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کرینگے۔ توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہو گا۔
فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں ختم ہو رہی ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو ہم کچھ دن وقفہ کرلیں گے اور اگر مذاکرات نہیں ہوتے تو آئینی کردار ادا کرینگے۔ فاضل چیف جسٹس نے عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی بنچ کی تشکیل کے حوالے سے فاضل ججوں کی قابلیت کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو بنچ میں شامل کرنا ایک خاموش پیغام تھا۔ آپ قانون کی بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا اور اگر میرے ججز کے بارے میں بات کرینگے تو میرا سامنا کرنا پڑیگا۔ انہوں نے باور کرایا کہ جو قید تھے آج وہ پارلیمنٹ میں خطاب کر رہے ہیں۔ انہیں کل غدار کہا گیا تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ منصف کا منصب ہر قسم کے تعصبات‘ ذاتی انائوں اور سیاسی ترجیحات سے بالاتر ہوتا ہے۔ انصاف کی عملداری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قاضی اور قاضی القضاۃ دنیاوی ترغیبات و ترجیحات سے بے نیاز ہو اور آئین و قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی اس کا مطمح نظر ہو اور انصاف کرتے وقت اسکے دل میں یہ خوف جاگزیں نہ ہو کہ اس کا صادر کردہ فیصلہ کسی کی ناراضگی کا باعث تو نہیں بنے گا۔ جج کے منصب کیلئے خوف خدا لازمی تقاضا ہے اور اسی تناظر میں معاشرے میں عدالت اور منصف کا تقدس قائم ہوتا ہے۔ جسٹس ایم آر کیانی کا قول ہے کہ جج نہیں‘ اسکے فیصلے بولتے ہیں۔ ججوں کا کوڈ آف کنڈکٹ اس امر کا ہی متقاضی ہے کہ اپنے عدالتی مقدس فرائض کو نبھانے کیلئے منصف کو اپنا تشخص ’’پبلک فیگر‘‘ والا قائم نہیں کرنا چاہیے۔ اسے شادی‘ بیاہ کی اور دوسری سماجی تقریبات میں جانے سے بھی گریز کرنا چاہیے اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنے عزیز و اقارب سے میل ملاقات میں بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے اس کوڈ آف کنڈکٹ کو کبھی ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھا گیا اور آئین کی دفعہ 184 شق 3 کے تحت سپریم کورٹ اور دفعہ 199 کے تحت ہائیکورٹس کے ازخود اختیارات کو جوڈیشل ایکٹوازم کے دائرے میں لا کر بعض ایسے اقدامات بھی اٹھائے جاتے رہے جن سے عدلیہ کے تقدس پر زد پڑتی تھی۔ سپریم کورٹ رولز کے تحت ازخود کارروائی کا اختیار صرف چیف جسٹس ہی استعمال کر سکتے ہیں جن کی عدالتی کے علاوہ انتظامی حیثیت بھی ہوتی ہے۔ اس معاملہ میں بالخصوص جسٹس سید سجاد علی شاہ‘ جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے جوڈیشل ایکٹوازم کے جو راستے اختیار کئے گئے اس سے عدلیہ کا احترام بھی متاثر ہوا اور جج کے منصب پر بھی حرف آیا۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اگرچہ اپنا منصب سنبھالتے وقت جوڈیشل ایکٹوازم سے گریز کے عزم کا اظہار تھا تاہم اپنے منصب کے آخری دور میں وہ بھی جوڈیشل ایکٹوازم کے راستے پر چل کر متنازعہ ہو گئے۔
اس وقت عدل گستری میں زیادہ قباحتیں ازخود کارروائی کے اختیار کی بنیاد پر جوڈیشل ایکٹوازم کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ جب سیاسی نوعیت کے معاملات میں ازخود اختیارات کو بروئے کار لایا جائیگا اور متعلقہ کیس کی سماعت کے دوران ایسے ریمارکس دیئے جائیں گے جن سے فیصلے کے حوالے سے عدالت کا ذہن اجاگر ہونا شروع ہو جائیگا تو ممکنہ طور پر اس فیصلے سے متاثر ہونیوالے فریق یا فریقین کی جانب سے ردعمل کا اظہار بھی فطری ہوگا۔ اگر عدالت اپنے کوڈ آف کنڈکٹ کو پیش نظر رکھ کر میرٹ اور قانون کے تقاضوں کے مطابق کسی کیس کی سماعت کرے جس میں جج نہیں‘ جج کا فیصلہ بولتا نظر آئے تو عدالت کی کارروائی اور اسکے تقدس پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع ہی نہ ملے۔ بدقسمتی سے جوڈیشل ایکٹوازم نے کوڈ آف کنڈکٹ کو ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھنے دیا۔
فاضل ججوں کی نیت‘ قابلیت اور اپنے منصب کے تقاضے اس منصب کی روح کے مطابق نبھانے کے معاملہ میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے اور اگر کسی کیس کی سماعت کیلئے مخصوص بنچوں کی تشکیل پر اور دوران سماعت دیئے جانیوالے ریمارکس پر کسی فریق کو اعتراض ہوتا ہے تو بادی النظر میں کوئی فریق یہ سمجھنے اور محسوس کرنے میں حق بجانب ہوگا کہ اسکے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں اس وقت اضطراب و قیاس کی جو صورتحال نظر آرہی ہے اس کا پس منظر بھی بظاہر ایک مخصوص سیاسی کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ کے بجائے ایک مخصوص بنچ تشکیل دینا ہے۔ اگر فل کورٹ کی تشکیل کا تقاضا خود وفاقی حکومت اور وکلاء کے نمائندہ ادارے پاکستان بار کونسل کی جانب سے کیا جارہا ہے اور یہی تقاضا اب سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی لندن میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران کیا ہے تو مؤثر حلقوں کے اس تقاضے کو نظرانداز کرکے مخصوص بنچ کی تشکیل دینے سے اضطراب بھی پیدا ہوگا اور سوال بھی اٹھیں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے گزشتہ روز دوران سماعت یہ ریمارکس دیکر انصاف کی عملداری پر سوال اٹھانے کا خود ہی موقع فراہم کیا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کو بنچ میں شامل کرنے کا مقصد خاموش پیغام تھا۔ اس حوالے سے لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں سوالات خود سپریم کورٹ کے اندر سے اٹھ رہے ہیں جنہیں نظرانداز کرکے انصاف کی عملداری پر لوگوں سے اعتماد قائم رکھنے کی کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے۔
آج ملک میں سیاسی محاذآرائی جو رنگ اختیار کررہی ہے اس میں کسی کا بھی شملہ اونچا اور پگڑی محفوظ نہیں رہ پائے گی اسلئے بالخصوص ادارہ جاتی سطح پر معاملہ فہمی سے کام لینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے یقیناً اسی تناظر میں ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لیکر طلوع ہوگا۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور گھمبیر سیاسی‘ آئینی اور عدالتی مسائل میں سے قومی مفاہمت کا کوئی راستہ نکل آئے بصورت دیگر منافرت بڑھے گی تو سسٹم کی مزید خرابی پر ہی منتج ہوگی۔