تلخ ماحول میں اکرم کنجاہی کی بابرکت تخلیقات

آج مجھے یہ نہیں لکھنا کہ آئین کے احترام میں کون مخلص ہے اور کون حالات کا فائدہ اٹھا کر اپنے لئے زمین ہموار کرنے میں لگا ہے ۔میڈیا کی بدلتی ہوئی صورتحال میں وطن عزیز کے سامنے سارے کرداربے نقاب بھی ہورہے ہیں اور وقت کی ہارڈ ڈسک میں سب کا کردار بھی ریکارڈ ہو کر آنے والے وقتوں کے لئے محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ تھانہ کچہری کی ابتدائی منزل سے لیکر سپریم کورٹ تک ہر جگہ جوکچھ ہو رہا وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔بنچ جس طرح اور جس پس منظر میں ٹوٹ رہے ہیں ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا تھا ۔دکھ اس بات کا ہے کہ عدالتی عسکری اور پارلیمانی اداروں کا کچھ بھرم تھا وہ سیاست اور اقتدار کے نشے میں مست بعض نادان دوستوں کی وجہ سے خاک میں ملتا نظر آ رہا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ عوام کے نام پر ہو رہا ہے منیر نیازی یاد آتے ہیں ۔
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر 
 شہر پر یہ ظلم میرے نام پراس نے کیا 
 عوام اور اداروں کے مابین جواحترام کا رشتہ تھا وہی تو ہماری سلامتی کا ضامن تھا لیکن اب وہ بھی چند روزہ اقتدار یا اس کی خواہش کی نذر ہو تا محسوس ہوتا ہے ۔ سب کچھ یہیں چھوڑ کر ایک دن مٹی کی نذر ہو جانے والوں کا حال یہ ہے کہ ۔ 
جسے بھی دیکھئے کوئے انا کو جاتا ہے 
 یہ راستہ ہے جوسچ مچ فنا کوجاتا ہے 
رمضان المبارک میں ایک طرف سیاست میں منافقت ہوس اقتدار میں جھوٹ کے فروغ اور پیارے نبی کے فرمان کے برعکس تحریر و تقریر کا استعمال دیکھ کر دل کڑھتا ہے اور سیاست اور انصاف کے ایوانوں میں ایک تماشا سا دیکھ کرفرعونوں تاتاریوں اور جدید دور کی مغرور طاقتوں کا عروج وزوال سامنے آتا ہے تودوسری طرف وہ لوگ آنکھوںکی ٹھنڈک بنتے ہیں جنہوں نے خلوص دل سے میرے نبی کی باتیں کیں ۔ادر تخلیق کے مختلف پیرایوں میں آپ کی شان بیان کی ۔ اس وادی میں وہ چہرے بھی غنیمت اور لائق تحسین ہیں جو تحقیق کی دنیا میں محنت سے ایسے لوگوں کی شخصیت میں چھپے حضور کے مداح کی ایک نئی جھلک سامنے لا رہے ہیں جن کی اصل پہچان کسی اور حوالے سے تھی ۔ ویسے تو مثبت تخلیقات اور تصنیفات کی تعداد کے حوالے سے رمضان المبارک میں پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم بہت یاد آتے ہیں لیکن اس وقت مجھے اکرم کنجاہی کا ذکرکرنا ہے جو ہیں تو کنجاہ ضلع گجرات اور برادر خوشحصال اور خطبات اقبال،مزہبی افکار کی تعمیر نو، اور متعدد دوسرے شاہکاروں کو پنجابی میں ڈھالنے والے اور جگراتے جیسے مجموعہ کلام کے خالق پنجاب یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبرجناب شریف کنجاہی کے قصبے کنجاہ کے لیکن ایک مدت سے کراچی میںایک سینئر ماہر تعلیم اور سکالرکی حیثیت سے ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اپنی تازہ دوتصنیفات میں سے ایک دبستان فلم کے نعت نگار میں کمال محنت سے ایک طرف تو ساغر صدیقی یزدانی جالندھری شکیل بدایونی صوفی تبسم صہبا اختر طفیل ہوشیار پوری قتیل شفائی کلیم عثمانی مظفر وارثی ماہر القادری جوش حبیب جالب حمائت علی شاعرظہیر کاشمیری سرور بارہ بنکوی منیر نیازی اور ییونس ہمدم جیسے بڑے قد کے گیت نگاروں کے کلام سے ان کی حضورکیلئے محبت کا رنگ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ اور دوسری کتاب معروضات میں غالب اور علامہ اقبال جیسے ممتاز شاعروں سمیت بہت سے دوسرے نعت گو شعرا کے کلام کا احاطہ کرتے ہوئے نعت کے سدا بہار پھول چن چن کر قارئین کو تحفے کی طرح پیش کئے ہیں اس کے ساتھ بڑا کام یہ کیا ہے کہ ایک اچھے ناقد کے طور پر اپنے لکھے ہوئے ایسے مقالہ جات کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے جن میں بعض نعت لکھنے والوں کوبالواسطہ احساس دلایا گیا ہے کہ وہ نعت لکھتے ہوئے ایسے تراکیب اور تخیلاتی دعووں کیلئے ایسے الفاظکا استعمال نہ کریں جو غیر ذمہ داری اور بہت حد تک گستاخی کی ذیل میں آتے ہیں ۔ معروضات مں شامل اکرم کنجاہی کے تنقیدی اور تحقیقی مضامین کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کتنی عرق ریزی سے اردو ادب کے زیر بحث حصے کا مطالعہ کیا ہے ۔ کلام غالب کے نعتیہ رنگ ،غالب اقبال اور فیض کی تلمیحات ،حمد و تعت کی عملی تنقید اور ایسے ہی مختلف موضوعات پر ان کے مضامین رمضان المبارک کی مبارک گھڑیوں میں قاری کیلئے سوچ کے نئے دریچے کھولتے محسوس ہوتے ہیں ۔ غالب کی طرف سے ابن مریم آدم و خلد ، آل عبا ، اورنگ سلیماں، رود نیل ، ساقی کوثر، سد سکندری ، اور علامہ اقبال کی طرف سے آئین ابو زر، حکم انظر، دروازہ شہر علوم ، نعمل الجمل ،حی لایموت ، اور فیض کی طرف سے آمد صر صر ، صور محشر ، دار کی خشک ٹہنی سمیت بے شمار تلمیحات والے مضمون میں تو اکرم راہی نے تینوں شاعروں کے ہاں تاریخی حوالوں کیلئے استعمال شدہ اتنی تلمیحات کا ذکر کیا ہے جن سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بڑا شاعر صرف شاعر نہیں ہوتا وہ تاریخ مذہب اور دانش کی پوری تاریخ کا طالب علم بھی ہوتا ہے اور انکے کلام کو وہی قاری سمجھ سکتے ہیں جن کا ان شعبوں میں اپنا مطالعہ بھی ہو ۔ایسی تخلیقات آج کے دور کی ضرورت اس لئے بھی ہیں کہ دنیا داری نے اور آلودہ سیاست نے ہمارے من کومیلا کردیا ہے اورایسی کتابوں کے مطالعے سے دلوں کی صفائی ممکن ہے ۔ حضور ﷺ کے حوالے سے کوئی کہاں تک لکھے گا ۔تبرک کے طور پر غالب کا ایک شعر۔

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گز اشتیم 
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمد است 
 یعنی حضور کی ثنا کا معاملہ اپنے اللہ کے سپرد کرتا ہوں کیونکہ یہ کسی کے بس کی بات نہیں اوراللہ کی پاک ذات ہی حضور ﷺکا مرتبہ جانتی ہے۔کاش آج کے بزعم خویش بڑے سیاسی قد کا دعوی کرنے والے لیڈران کرام حضور ﷺکی سیرت کو پیش نظر رکھتے توملک وقوم کا وہ حشر نہ ہوتا جو آج ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...