ہمارے برعکس زمانہ بہت تیزی اور سبک رفتاری سے بدل رہا ہے۔نئی نئی ایجادات نے انسانی زندگی وں کو ہر زاویے سے سہل مزاج اور صد رنگ بنا دیا ہے۔ فقط کسی کو دس بارہ مربع انچ کا موبائل فون تھامے دیکھیں تو لگتا ہے کہ پوری کائنات سکڑ کر ا س کے اس ہاتھ میں سمٹ آئی ہو۔ وہ دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت کی پور سے دنیا کے جس خطے میں جانا چاہے، کسی سفری ضروریات اور قانونی پیچیدگیوں کے بغیر جا سکتا ہے۔ اور تو اور دوائیاں جو بھلے وقتوں میں زہر اور کوڑ تمہ کی طرح کڑوی اور کسیلی ہوا کرتی تھیں، بیمار کو ان دوائیوں کا ذائقہ بیماری سے بھی زیادہ تکلیف دہ لگتا تھا، اب آسانی کے ساتھ حلق سے معدے میں اتر جاتی ہیں۔ اِس وصف کی وجہ سے اب مریض کا دھیان کلی طور پر صرف مرض کی حد تک ہی محدود و مرکوز رہتا ہے۔
علاوہ ازیں، تکلیف دینے والے آلاتِ جراحی بھی انسان کو پہلے کے مقابلے میں کم سے کم تکلیف دینے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر آجکل ٹیکہ لگانے والی سوئیاں (سرنجیں) اتنی نرم مزاج، انسان دوست اور sophisticated ہو گئی ہیں کہ انسانی جسم میں پیوست ہوتے وقت اتنی تکلیف بھی نہیں دیتیں جتنی آپ کا ڈیڑھ سالہ لاڈلا نواسہ یا پوتا ترنگ میں آ کر چٹکی کے عمل کا دورانیہ پورا کرتے وقت سر انجام دیتا ہے۔ ہمارے بچپن اور جوانی کے دنوں میں یہ اتنی بے رحم، کٹھور اور آوارہ مزاج ہوا کرتی تھیں کہ ان کو دیکھتے ہی یوں لگتا تھا جیسے کوئی بپھرا ہوا گینڈا نتھنے پھلائے ایک نہتی، معصوم، بے ضرر اور ننھی سی جان کے درپے ہو۔
اِن سوئیوں کا انسان دوست ہونے کا بھید کرونا راج پاٹ کے دوران آشکار ہوا۔ کرونا تن تنہا چین سے نکلا اور معاً اس نے پوری دنیا کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔ اس کی حسن اور مادہ پرستی ملاحظہ فرمائیں کہ امیر اور طاقتور ممالک کے شہری ،شاید، گوری رنگت اور خوبصورتی کے باعث خصوصی طور پر اس کا ہدف بنے رہے۔ کرونا نے اِس یقین اور عہد کے ساتھ کہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے اور مقابلہ سخت، نہایت چابکدستی سے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر ڈالی. اس اَن تَھک اور عزمِ مصمم کے دھنی نے نہ خود آرام کیا نہ کسی کو چین کی نیند سونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے اوراق میں خوف اور دہشت کی فضا جو چنگیز خان، ہلاکو خان، ہٹلر اور جارج بش نے پیدا کی تھی، کرونا کے مقابلے میں ہیچ نظر آئی۔ برطانیہ نے صدیوں کی ریاضت سے پوری دنیا پر راج کرنے کا جو خواب دیکھا تھا، وہ اس کو جزوی طور پر ہی پورا کر پایا تھا۔ مانا کہ ا س کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر پھر بھی وہ پوری دنیا کو فتح کرنے کے عزم میں میں بری طرح ناکام رہا تھا۔ کرونا نے ا س کا ریکارڈ تہس نہس کرتے ہوئے دنیا کے ہر خطے کو کرونا کالونی بنا لیا تھا۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ اور یورپ میں کرونا کے ہاتھوں سب سے بڑا شکار ضعیف العمر شہری ہوئے۔ ا ن میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو نہ تو جینا چاہتے تھے اور نہ ہی خود کشی کرنا۔ ایسے بزرگوں کے لئے کرونا ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوا۔
مغرب میں ریٹائرڈ آدمی کو سینئر سٹیزن اور ہمارے ہاں ’’بزرگ‘‘ کہا جاتا ہے۔اِسی مناسبت سے ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی گزارنے کے عمل کو دورِ بزرگی کا نام دیا گیا ہے۔بزرگ کے مترادف لفظوں میں بوڑھا، بڈھا، کھوسٹ، ضعیف العمر، سن رسیدہ اور معمر نمایاں ہیں۔ کبھی کبھی یہ الفاظ طعنہ زنی، چھیڑ خوانی اور مذاق کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ تحقیر کے لئے بڈھا کھوسٹ اور بڈھا طوطا کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ چونکہ انگریز ہر کام مکمل سوچ و بچار اور غور و خوض کے بعد کرنے کے عادی ہیں، سو طویل تحقیق اور عرق ریزی کے بعد انہوں نے برصغیر میں ریٹائرمنٹ کی حدِ عمر ساٹھ سال مقرر کی تھی۔ اِس قانون پر پاکستان میں ابھی تک سختی سے عمل بھی ہو رہا ہے۔کبھی کبھی سننے میں آتا رہا ہے کہ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 65 سال یا کم کرکے 58 سال کی جا رہی ہے مگر ابھی تک شائید انگریزوں کی اتباع کے احترام میں ایسا کوئی فیصلہ ہو نہیں پا رہا۔
خواتین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اصل سے اپنی عمر کم بتاتی ہیں۔ اِس عمل میں بعض مرد حضرات خواتین کی اِس اجارہ دارانہ روایت کو چیلنج کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ بزرگ جو اپنی عمر تو کم ظاہر نہیں کرتے مگر کسی اور پہلو سے ڈنڈی مار جاتے ہیں۔مثلاً جب کوئی ا ن سے بزرگی کی عمر پوچھتا ہے تو وہ اپنی موجودہ عمر میں سات ماہ جمع کرکے حاصل جمع کو بزرگی کی عمر قرار دے دیتے ہیں۔ اِس فارمولے کو وہ گزشتہ پانچ سال سے اپنی ذات بابرکات پر لاگو کرکے از خود توسیع دئیے جا رہے ہیں۔ وہ کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ریاضیاتی کلیہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے کلیہ برائے توسیع عمر سے اخذ (derive) کیا ہے کیونکہ جنرل ضیائ الحق کے دور میں ان کی عمر اٹھائیس سال اور ساڑھے پانچ ماہ تھی۔ اِسی فارمولے کے صدقے بزرگی کی لکیر ان کے آگے آگے بھاگ رہی ہے۔
سیاست دان، وکیل اور کاروباری حضرات کو بہت سے معاملات میں ڈھیر ساری سہولتیں اور راحتیں میسر ہیں۔ منفی پہلو صرف یہ ہے کہ ان کو پنشن نہیں ملتی. انتہائی خوش کن اور سدا بہار نعمت اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔ یہ آخری صحتمند سانس تک پورے عزم و ہمت اور جاہ و جلال کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ گھر میں ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اِن کے برعکس ریٹائرڈ بندے کی حیثیت گھر میں ایک فالتو پرزے کی سی ہو جاتی ہے۔ بالکل انسانی جسم میں اپنڈکس کی طرح۔ تاہم وہ بہت صابر و شاکر ہو جاتا ہے۔ قوتِ برداشت میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہو جاتا ہے۔ گھر میں ہر کسی سے جلی کٹی سن کر خاموشی سے اذان ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ نماز سے فراغت کے بعد ہم خیال بزرگوں کے ساتھ کچھ دیر مسجد کے اندر اور پھر باہر نکل کر مذہب اور سیاست کے حوالے سے یا موقع ملے تو اپنی سابقہ شاندار نوکری کے شوخ رازوں اور مثبت پہلوو ¿ں کا فخریہ انداز میں تذکرہ کرتا ہے۔ عام طور پر وہ کسی نزدیکی پارک میں چہل قدمی کرنا کبھی نہیں بھولتا۔
کل میں اپنے ڈیڑھ سالہ نواسے محمد الحان کے ساتھ پارک میں ٹہلنے کے لئے گیا تو ایک بزرگ کو دنیا و مافِیہا سے بے خبر ایک بچے کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے پایا۔ خاموشی سے کچھ دیر ر ک کر ان کا کھیل دیکھا تو لگا کہ بچہ کھیل سے اور بزرگ وقت بسری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ دونوں میں ساتھ ساتھ چلنے والا خون اور غرض کا تعلق بہت بھلا لگا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ دونوں دادا پوتا ہیں۔ رویوں سے عمر کا کوئی پانچ چھ ماہ کا فرق محسوس ہو رہا تھا۔ یعنی دادا پوتے سے پانچ چھ ماہ چھوٹا لگ رہا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اللہ کے وضع کردہ نظام میں یہ خوبصورت رشتے نہ ہوتے تو انسان دن کے وقت درختوں، پھولوں، جانوروں، پرندوں اور رات کو چاند ستاروں سے باتیں کرکے وقت گزارا کرتا۔ جب بھی میرا نواسہ اپنے کھلونے لے کر میرے پاس آتا ہے تو میرے لاشعور میں سویا ہوا دو سالہ بچہ بیدار ہو کر ا س کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتا ہے اور میں چپ چاپ اپنی شخصیت کو دو حصوں میں منقسم دیکھتا چلا جاتا ہوں۔