گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
قارئین!میں ان دنوں یورپ اور سینٹرل ایشیا کے مطالعاتی دورے پر ہوں اور اس دوران میں نے جو کچھ دیکھا ،سُنا اور اپنی آنکھوں سے بغور مشاہدہ کیا اُس کا پاکستان کے حالات سے تقابلی جائزہ آئندہ آنے والے کالموں میں تسلسل سے کیا جائے گا۔اب چلتے ہیں آج کے کالم کی طرف۔اللہ تعالیٰ نے یہ وطن عزیز ہم کو خاص طور پر نوازا ہے اور اب اس تحفہ¿ خداوندی کا تحفظ اور اس کو سنبھالنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ مگر کچھ مفاد پرست سیاستدانوں ،جاگیرداروں، بیوروکریٹس ،تاجروں ،اسٹیبلشمنٹ، منصفوں اور تو اور عوام نے بھی اس کی مطلوبہ قدر نہیں کی۔ اور آج ہمارا حال یہ ہے کہ پاکستان سے باہر رہنے والے کمائی پر اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے باہر گئے ہوئے سمندر پار پاکستانی تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بقیہ دنیا کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں برابر اور آگے تو کیا ہمارا کوئی ان سے مقابلہ ہی نہیں ۔یعنی اس وقت افریقہ کے پسماندہ ترین وہ ممالک جہاں کئی عشروں سے خانہ جنگی ،قتل و غارت اور بدامنی کا ماحول تھاحتیٰ کہ ہمارے بچپن میں نیشنل ٹی وی پر خبروں اور خصوصی پروگراموں میں بتایا جاتا تھا کہ ایتھوپیا ،صومالیہ ، روانڈا،سوڈان، تنزانیہ اور سینٹرل افریقہ کے درجنوں ممالک بھوک،مفلسی اور خوراک کی کمی کا شکار ہو کر روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہو رہی ہیں۔اور پاکستان و دیگر ممالک سے ان لوگوں کے لیے چندے اور عطیات اکٹھے کرکے مختلف این جی اوز اور غیر سرکاری تنظیمیں ان ممالک کے فوڈ پروگراموں کو بھیجا کرتی تھیں۔اور وہ ممالک کوئی برٹش، فرینچ، پرتگال اور سپین کی کالونیاں تھے۔قارئین!مگر پچھلے پچیس سال سے ان لوگوں کے اندر تعلیم نے شعور پیدا کیا اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے ہی دیسوں سے سینکڑوں وی لاگرز حضرات وہاں جا کر وہاں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں ۔جسے دیکھ کر ہمیں ان کی کرشماتی اکانومی کا اس قدر مضبوط ہونا نظر آتا ہے کہ عقل دھنک رہ جاتی ہے۔ آپ دیکھیں ایتھوپیا سمیت ان ممالک کے بڑے شہروں میں کوئی دو منزلہ سے بڑی بلڈنگ خال ہی نظر آتی تھیں۔اب افریقہ کے ان شہروں میں ہائی رائز عمارات کا جال بچھا ہوا ہے ۔افریقہ کے اکثر ممالک میں چین نے سرمایہ کاری کی اور بلٹ ٹرین جیسی سروس وہاں شروع کر دی گئی ہے۔اور ان دو درجن افریقی ممالک میں سے زیادہ تر کالونی ازم کے تسلط سے آزاد ہو چکے ہیں۔افریقہ کے دور دراز دیہی علاقوں میں بھی چلے جائیں ،ایک تو آپ کو سڑکوں کا جال نظر آئے گااور دوسرا ہر چھوٹے بڑے شہر یا گاﺅں میں الصبح بچے سکول جاتے خوبصورت یونیفارم میں نظر آئیں گے۔افریقہ ان ممالک میں آج بھی شرح خواندگی میں ہم سے کئی درجے بہتر ہے۔
پاکستان میں آج بھی خواندگی کی شرح 27سے33فیصد ہے جب کہ غریب ترین افریقی اور ساﺅتھ امریکہ وایشیا کے ممالک میں کہیں بھی شرح تعلیم کا معیار پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔جب کہ پاکستان میں آج بھی تین کروڑ بچے سکولوں اور ایجوکیشن سے محروم ہیں۔اور جب بھی کسی اچھے بھلے نظر آتے باشعور انسان سے پاکستان میں یہ پوچھیں تو وہ تعلیم کی اہمیت کو ماننے سے ہی انکاری ہوتے ہیں۔پاکستان میں دینی مدرسوں کی تعداد جدید تعلیمی اداروں سے بہت زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے قریبی ہمسایہ ملک بھارت کو اپنا ازلی دشمن مانتے ہیں ۔ صرف اس بنیاد پر ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں کہ وہ نیوکلیئر پاور ہیں تو ہم بھی نیوکلیئر پاور ہیں۔ ان کے پاس بالی ووڈ ہے تو ہمارے پاس بھی لالی ووڈ ہے۔مگر قارئین ہماری جو حالت بالی ووڈ کے مقابلے میں لالی ووڈ کی ہے ،وہی شرح تناسب بھارت اور ہماری معیشت کے درمیان ہے۔ اور آج بھارت (چندرماں )یعنی چاند پر پہنچنے والے تین چار ممالک میں شمار ہوتا ہے۔جب کہ ہمیں میترانوالی سے ڈسکہ جاتے ہوئے ہماری پسلیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔میں پچھلے بیس سال سے زائد عرصے سے قلم کاری کر رہا ہوں ،”نوائے وقت“ جیسے موقر اخبار میں تجزیاتی کالم لکھتا ہوں ،دو درجن سے زائد کتب تصنیف کی ہیں۔میں آج اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرے جیسے کاوش کرنے والے دیگر رائٹرز بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستانی عوام شعور لینے کے لیے تیار ہی نہیں۔دراصل ہمارے عوام کو پتا ہی نہیں کہ ہم کس دلدل میں پھنس چکے ہیں۔اگر کوئی ہمیں اچھا لیڈر ملتا ہے ،جو ملک کی بکھری معیشت کو ،ملک کے آئین کو بچانانا چاہتا ہے ،سسٹم اور آئین کو ٹھیک کرنا چاہتا ہے تو اسے یا تو پھانسی دے دی جاتی ہے یا اسے ملک بدر کر دیا جاتاہے یا پھر زندان خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔اور ابھی گذشتہ چند ہفتوں پہلے ہونے والے انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح مسخ کرکے عوامی مینڈیٹ کی توہین کی گئی ہے۔جس سے نہ صرف پوری دنیا اور خصوصاً ہماری پاکستانی عوام آئندہ کسی بھی انتخابی عمل سے متنفر کر دی گئی ہے۔
قارئین! یاد رکھیے جس ملک میں سیاست کی نرسری تیار نہیں ہوگی وہاں سیاسی لیڈرشپ کیسے آگے آئیں گی۔یہ تو بالکل اس طرح ہے کہ مسافروں سے بھری کشتی کو بیچ مندھار میں ملاح کے بغیر اکیلا چھوڑ دیا جائے تو وہ کشتی کیسے کنارے لگے گی؟قارئین آپ یقینا دیکھ رہے ہوں گے کہ آج بھی وطن عزیز کے اندر ایک مخصوص ادارے سے ریٹائرافراد کو اٹھا کر انچارج یا سربراہ بنا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔جس سے ایک تو سسٹم اور میرٹ کی حق تلفی(وائلیشن)ہوتی ہے اور دوسرا قوم کے اندر آگے بڑھنے کا رجحان ناپید ہوتا جا رہا ہے۔کہ میں پڑھوں تو کیوں پڑھوں اور اگر پڑھ کر ٹاپ پر بھی آ جاﺅں تو مجھے کون سی میرٹ پر جاب مل جانی ہے؟اس لیے ہمارے ملک کے ہر ادارے کو یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان کے 65فیصد افراد آج نوجوانوں پر مشتمل ہے۔جن کی عمر پینتیس سال سے کم ہے۔جب ہم ان 65فیصد افراد سے ان کا عزم اور دلچسپی چھین لیں گے تو کیا بقیہ ریٹائر لوگوں سے ملک چلانے جیسا دھندا ممکن ہوگا؟قارئین ہمارے ہر ادارے اور ہر افراد کو ایک نظام اور سسٹم کے تحت چلناہوگاوگرنہ سن 71جیسے واقعات آج بھی کسی مگرمچھ کی طرح رالیں ٹپکاتے ہوئے ہماری کسی فاش غلطی کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔دوسری طرف قوم کو ایک مربوط نظام کے تحت ہی یکجا اور متحد رکھا جاسکتا ہے۔اب خوف ،دہشت اور صعوبتوں کے ذریعے عوام کو محکوم بنانا تقریباً ناممکنات میں شامل ہو چکا ہے۔کیونکہ آج کی اس گلوبل ویلج کی دنیا ہمیں ہر پل واچ کرتی نظر آ رہی ہے۔جو کچھ آج کل وطن عزیز میں ہو رہا ہے اس کے چرچے یورپی یونین ،او آئی سی ، اقوام متحدہ اور برٹش و امریکن پارلیمنٹ میں نہیں ہو رہے۔اور یہ تمام ادارے اور ممالک ہمارے موجودہ حکمرانوں کو تسلیم کریں گے؟اس لیے اب یہ وقت ہوا چاہتا ہے کہ اب ہم اپنے تمام تر اندرونی اختلافات کو بھلا کر یہ قوم اور ملک بچانے کے لیے اپنے دل صاف کرکے ایک نئے عزم کے ساتھ کہیں نہ کہیں سے شروعات تو کریںتو پھر آگے اللہ مالک ہے۔