بیانیے کا ایندھن

معاشی حالات سے پریشان ایک غریب دیہاتی اپنی گائے بیچنے کیلئے نکلا، ابھی شہر سے کچھ فاصلے پر ہی تھا کہ ایک شخص ملا اس نے پوچھا چوہدری صاحب بکری بیچنی ہے؟ دیہاتی نے غصے سے اس شخص کی جانب دیکھا اور بولا اندھے ہو یہ بکری نہیں گائے ہے۔ تھوڑا آگے گیا تو ایک اور شخص ملا اس نے بھی پوچھا بکری کتنے میں بیچنی ہے ؟ دیہاتی کو اور غصہ آیا اور وہ بڑ بڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ راستے میں وقفے واقفے سے کچھ اور لوگ ملتے گئے جنہوں نے گائے کو بکری کہا ,یہاں تک کہ اسے خود بھی شک ہونا شروع ہوگیا کہ کیا واقعی اس کے پاس گائے نہیں بکری ہے۔ اور بالآخر شہر پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنی گائے کو بکری مان کر بکری کی قیمت میں ہی فروخت کر آیا۔ یقینا ایسی ہی کسی کہانی سے متاثر ہوکر ہٹلر کے ترجمان جوزف گوبلز نے اسے ایک باقاعدہ پالیسی کی شکل دیدی۔ یعنی اتنا جھوٹ بولو کہ وہ سچ لگنا شروع ہوجائے اور یہ پالیسی یا حکمت عملی سوشل میڈیا کے آج کے دور میں ایک بڑا ہتھیار بن گئی جہاں دوسرے کی گائے کو بکری اور اپنی بکری کو گائے ثابت کرنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ بس ایسے لوگ ہونے چاہیں جو صبح شام بکری کو گائے کہتے رہیں ،آج ہم بھی ایسے ہی بیانیوں کا شکار معاشرہ بن چکے ہیں۔ ہماری سیاست کو دیکھ لیں 2018ءاور 2024ءکے حالات کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ 2018ءمیں ایک سابق وزیر اعظم جیل میں تھے۔ ان کو جس کیس میں سزا دی گئی تھی اس میں عدالتی فیصلوں میں کہیں بھی واضح طور پر کرپشن کا ذکر نہیں تھا لیکن اتنا زیادہ چور ڈاکو اور کرپٹ کہا گیا کہ شاید انہیں خود پر بھی شک ہونا شروع ہوگیا ہوگا۔ آج بھی ایک سابق وزیر اعظم عدالت سے سزا یافتہ ہیں جنہیں کرپشن کے ایک کیس کے علاوہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ یعنی ملکی قانون کی خلاف ورزی اور عدت میں نکاح یعنی مذہبی تعلیمات کی خلاف ورزی جیسے کیسز میں بھی سزا ہوچکی ہے لیکن کوئی بھی نہ انہیں چور ڈاکو مانتا ہے نہ کچھ اور،بلکہ ان کو تو قیدی کا ایک مخصوص 804 نمبر دیکر برانڈ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ویسے یہ اور بات ہے کہ اڈیالہ جیل کے ذرائع کے مطابق وہاں جس قیدی کا نمبر 804 ہے وہ منشیات کے کیس میں سزا یافتہ کوئی دوسرا شخص ہے،لیکن بات تو بار بار دہرا کر بیانیہ بنانے کی ہے۔ 2018ءکے انتخابات میں آر ٹی ایس خراب ہوا جس کا اعتراف خود الیکشن کمشن نے کیا۔ نتائج میں غیر معمولی تاخیر ہوئی، ایک جماعت کے سوا تمام بڑی جماعتوں نے انتخابی نتائج پر شدید تنقید کی اور کچھ تو اسمبلی میں جانے کو بھی تیار نہ تھیں لیکن انتخابی عمل اس پیمانے پر متنازعہ نہیں بنا جتنا اس بار۔ ابھی تک ملک کی کسی عدالت میں کسی قسم کی انتخابی دھاندلی ثابت نہیں ہوئی لیکن الیکشن اتنے متنازعہ بنادئیے گئے کہ دنیا بھر میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ نتائج تبدیلی کا اتنا واویلا کیا گیا کہ بھاری مارجن سے جیتنے والوں کی جیت بھی مشکوک لگنے لگی، گزشتہ دور حکومت میں عدالت عظمی کے سینئر جج اور موجودہ چیف جسٹس نے فیض آباد دھرنا کیس میں سیکیورٹی ایجنسیز کی مداخلت کے حوالے سے بڑا فیصلہ دیا تو انہیں اپنے خلاف ایک حکومتی ریفرنس کا سامنا کرنا پڑگیا۔ پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک سینئر جج نے اپنی تقریر میں کھل کر اور نام لیکر سیاسی کیسز میں ایجینسیوں کی مداخلت اور دباو کی بات کی۔ انہیں برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ معزز ججز اپنے خلاف الزمات کی جنگ عدالتوں میں جیتے لیکن سوشل میڈیا پر جو ٹرولنگ ہوئی وہ سب کو یاد رہے گی، نیب عدالت کے جج نے اپنی ایک لیک ویڈیو میں سابق وزیر اعظم کو دباو میں آکر سزا دینے کا اعتراف کیا لیکن ان کیساتھ کیا ہوا، آج ہائیکورٹ کے چھ ججز نے سپریم کورٹ کو ایک خط میں مداخلت کے کچھ الزامات عائد کئے ان پر نوٹس بھی ہوا، تحقیقات بھی شروع کردی گئیں
 لیکن بیانیہ ایسا بنایا جارہا ہے جیسے کچھ ایسا ہوگیا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں ناں، تیز ٹانگوں والوں سے تیز زبان والے زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ بات درست ہے تبھی تو ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا پر وہی لوگ کامیاب ہیں وہی چھائے ہوئے ہیں جو زبان کے تیز ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں یہ رجحان بہت تیزی کیساتھ بڑھا ہے جہاں ان تیز زبان والوں کی اہمیت سمجھتے ہوئے ان کی خدمات حاصل کی گئیں اور انہیں اپنے لئے بیانیہ بنانے میں استعمال کیا گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے دیہاتی کی گائے کو بکری کہنے والوں کو۔ لیکن اس سب میں نقصان تو ان کا ہوا جو باتوں میں آکر گائے اور بکری کی پہچان ہی بھول گئے۔ جھوٹ بار بار بولا جائے تو وہ سچ لگنے لگتا ہے لیکن سچ بار بار بولا جائے تو اس میں جھوٹ کا گمان پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں مسئلہ ان کا نہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرتے ہیں بلکہ ان کا ہے جو اس بار بار کے جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں۔ جھوٹ سن سن کر ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں رہتی کہ وہ سچ اور جھوٹ کو پرکھ سکیں۔ باتوں میں آجانے والے یہی سادہ لوگ در اصل جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنیوالوں کی اصل طاقت ہیں بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ ان کے بیانیے کا ایندھن۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن