ہم بھی بہت عجیب ہیں اتنے عجیب ہیں کہ....

برٹش دور کے راج دلارے اور بعد میں پاکستانی کرم فرماو¿ں کی اکھیوں کے تارے غلام محمد گورنر جنرل تھے۔ شدید بیمار پڑے۔ لقوہ نے چہرے کا نقشہ بھگاڑ دیا۔ بات تک کرنا مشکل ہو گیا۔ شاید کچھ ایسی کیفیت تھی کہ کسی کو کہتے ”پانی لا“ تو لگتا جیسے کہہ رہے ہیں ”سائیکل چلا، یا ”مرجا“۔ لیکن شوق حکمرانی اور ناز نخرے تھے کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ ایک روز خبر آئی کہ مصر اور مسلمانوں کے ہر دلعزیز رہنما جمال عبدالناصر بھارت جاتے ہوئے کچھ دیر پاکستان میں قیام کرینگے۔ ہمارے گورنر جنرل یہ سن کر بچوں کی طرح مچل گئے۔ بضد ہوئے کہ اپنی پرائیویٹ سیکرٹری جو ان کے اشارے بھی سمجھ لینے میں ماہر تھیں کی بجائے خود بات کرینگے، لاکھ سمجھایا گیا، امت مسلمہ کے اتحاد کے واسطے دیئے گئے لیکن موصوف ٹس سے مس نہ ہوئے (جیسا کہ اکثر گھر یعنی ملک کے اندرونی معاملات میں ہمارے حکمرانوں کا اب تک وطیرہ ہے) چنانچہ صدر ناصر کے سامنے جا بیٹھے اور اپنے لقوہ زدہ منہ سے انگریزی میں ارشاد فرمایا کہ جناب صدر پچھلے دنوں میں بہت بیمار ہو گیا تھا۔ ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“ کے مصداق صدر ناصر کے پلّے اس عظیم مسلمان رہنما کی اہم ترین بات کا ایک لفظ بھی نہ پڑا۔ اور ڈپلومیٹک انداز میں جواب دیا کہ مسٹر گورنر ”گڈ“۔ یہ سن کر ہمارے صاحب کے چہرے پر غصے کی ایک زبردست لہر پیدا ہوئی لیکن کمال مہارت اور دانشمندای سے پی گئے اور سمجھانے والے عاقل بالغ انداز میں (کم ازکم بالغ تو وہ ضرور تھے) دوبارہ فرمایا کہ اتنا بیمار کہ مرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ اسے دشمن کی سازش کہیں یا کچھ اور، جمال عبدالناصر پھر بھی کچھ نہ سمجھ سکے۔ اندازے سے پھر کہہ بیٹھے ”ویری گڈ مسٹر گورنر جنرل“۔ اب بھلا اچھے تعلقات کا سوال ہو یا امت مسلمہ کے اتحاد کا معاملہ.... کم از کم یہ بات تو برداشت نہیں کی جا سکتی تھی۔ ہمارے محبوب لیڈر اور سابقہ انڈین سول سروس کے سپوت غصے سے اٹھے اور مارنے کو دوڑے۔ دروغ بہ گردن راوی اگر بیچ بچاو¿ نہ کرایا جاتا تو شاید مصر سے تا قیامت ہمارے تعلقات ہمیشہ کیلئے خراب ہو جاتے اور دوسرے ملکوں کے وفود بھی ہمارے ملک آنے سے اسی طرح گھبراتے جس طرح بقول دانشوروں کے ”اب سائفر آنے سے گھبراتے ہیں۔“
یہ واقعہ یاد کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ ہم بھی کتنے عجیب لوگ ہیں۔ ہر چیز کو بڑی مہارت کے ساتھ بگاڑ کی انتہا تک پہنچانے میں ثانی نہیں رکھتے۔ حکمران ہوں یا عوام، اس فن میں سب ہی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ہاکی ہو یا کرکرکٹ جو کھیل بھی کھیلتے ہیں اسے تدفین کے کنارے تک پہنچا کر آتے ہیں۔ بسنت جیسے خوشنما تہوار کو قاتل ڈور تک لے جانے کا سبب بن جاتے ہیں، گھروں کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے لگا دیتے ہیں اور گلی محلوں میں اس فراخدلی سے کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں جسے انہیں صاف رکھنا ہماری ذمہ داری میں شامل ہی نہ ہو اور گلی محلے کی خوبصورتی سے ہمیں کوئی لینا دینا ہی نہ ہو۔ چاہے ہولناک بیماریاں ہی کیوں نہ پھیلیں.... بیکار اور لایعنی آئیڈیاز کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑ جاتے ہیں۔ (پنجے مہاورتاً لکھا ہے عملی طور پر اگرچہ ہم اس کے قریب قریب ہیں لیکن ابھی یہ منزل نہیں آئی) 
رمضان المبارک میں رو رو کر گناہ بخشوانے کی کوشش کرتے ہیں اور ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، جعلی مہنگائی کرکے عاقبت کے ساتھ دنیا بھی سنوارنے کی پوری جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ اور ہر ماہ رمضان میں پچھلے تمام ریکارڈ بڑی فراخدلی سے توڑتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے دفاتر، تعلیمی ادارے، تھانے، ہسپتال اور انصاف کے مراکز اس دنیا کا حصہ کسی بھی طرح دکھائی نہیں دیتے بلکہ جہنم کے آخری درجے کا نقشہ پیش کرتے ہیں جہاں مسیحا نہیں دروغہ حضرات ہاتھوں میں طرح طرح کے اذیت دینے والے اوزار اور زبان کے اعلیٰ ترین نشتروں سے ہمیں چھلنی چھلنی کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ بے کار باتوں کے تعاقب کے اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ کھانے والے حلوے کو چھوڑ پہننے والے حلوے کا محاصرہ کر لیتے ہیں اور یہ سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے کہ دین نے تاکید کر رکھی ہے کہ ”پہلے خوب تحقیق کر لیا کرو“۔
بے مغز دلائل اور بے مقصد باتوں پر داد دینے کے ماہر ہو چکے ہیں۔ عقلی دلیلوں کا گزر بسر ہمارے ہاں اب اتنا ہی ہے جتنا شاعر کی شاعری کے مطابق اسکے کوچے میں محبوب کا گزر ہوتا ہے۔سیاسی، جمہوری پلیٹ فارموں سے لیکر میڈیا ہاو¿سز اور چائے خانوں تک ایسے بے سروپا مباحث دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جیسے انڈا پہلے پیدا ہوا یا مرغی والا معمہ حل کرنا ہماری ہی ذمہ داری ٹھہری۔ 
علم سیاسیات کے دو دانشوروں نے 15 برس کی ریسرچ کے بعد ایک کتاب میں لکھا ہے جس کا نام ”قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں“ ((why nations fail ) ) رکھا۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ آیا کلچر، جغرافیہ، رنگ نسل پر مبنی وجوہات قوموں کی ترقی یا زوال کا باعث بنتی ہیں۔ جواب ایک بڑی سی نفی ہے۔ یقینناً وہ محرکات نہیں جو اقوام کی ترقی یا زوال کا باعث ہوتے ہیں بلکہ قوموں کو عروج پر لے جانے کیلئے مسلسل محنت مقصد کا تعین اور پھر اسکے حصول کیلئے جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور سب بڑھ کر احساس ذمہ داری ہوتا ہے۔ ایسے نہیں ہوتا کہ گھر تو لش پش کریں اور گلی محلے کوڑے دانوں کا منظر پیش کرتے نظر آئیں۔ یہ کتاب ایک عرصہ سے چلی آنے والی ”وائٹ مین ٹو رول‘ والی تھیوری بھی مزید شدت سے توڑتی نظر آتی ہے۔ اس میں مثالوں سے واضح کر دیا گیا ہے کہ نسل کا تو ترقی سے کوئی تعلق ہی نہیں اگر ایسا ہوتا تو جنوبی کوریا کی طرح شمالی کوریا بھی دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شامل ہوتا۔ قوموں کی ترقی کا راز انتھک محنت اور مقصد کے درست تعین میں ہے اس میں بھی وہ ملک مزید آگے بڑھتے ہیں جو اپنے عوام تک اس ترقی کا ثمر ٹریکل ڈاو¿ن کرتے ہیں۔ گھر، صحت، تعلیم اور انصاف کی بہترین سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے کہ ملک مشکل میں ہے کڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ اور کڑے فیصلے یہ ہیں کہ یوٹیلٹی بلز، غذائی اشیاءاور ادویات پر بے تحاشا، ٹیکس لگا دیئے جائیں اور چند افراد (اشرافیہ) پر عنایات کی بارش کر دی جائے۔ سب کو ساتھ لیکر چلنے کا نام ہی ایک متوازن ریاست ہے۔ اسکے بغیر اکیسویں صدی میں آگے بڑھنا مشکل نہیں، نا ممکن ہے۔ کیا ہم ایک متوازن ریاست قائم کر پائیں گے اگر کر پائیں گے تو اس کیلئے ہمارے پاس لائن آف ایکشن کیا ہے؟ اگر کوئی لائن آف ایکشن نہیں ہے تو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے سائنسی، معاشی، سیاسی اور دیگر علوم کے ماہر افراد سے رجوع کریں۔ ان افراد سے جن کیلئے ہم نے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں چھوڑی۔ وہ ویڑن اور آئیڈیاز ہونے کے باوجود بے نامی کے گڑھوں میں گرتے جا رہے ہیں۔ اپنے من پسند افراد کو اعزازات کے ڈھیروں میں ضرور دفن کریں کہ غیر جانبداری ایک بہت بڑی کوالٹی ہے جو آتے آتے آتی ہے لیکن کم از کم اپنے اصل دانشوروں کو تو بے یارو مدد گار نہ چھوڑیں کہ انہیں بے یارو مدد گار چھوڑنے سے ریاستیں بے یارو مدد گار ہو جایا کرتی ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم ایسے لوگوں پر مشتمل تھنک ٹینکس تشکیل دیں۔ انہیں عزت اور مقام دیں تاکہ وہ ملک کیلئے اچھے اچھے آئیڈیاز لیکر سامنے آئیں۔ خوشامدی کلچر سے جان چھڑانا آسان نہیں۔ اسے بھی ساتھ رکھ لیں لیکن سچے موتی رائیگاں نہ جانے دیں۔ ہم عجیب لوگ ہیں کہ جنہیں اپنے بچوں کے مستقبل کا بھی کوئی احساس نہیں۔ اسی لئے ایک بے ڈھنگی چال چلے جا رہے ہیں، یہ معلوم کئے بغیر کہ یہ بے ڈھنگی چال کس کھائی کی طرف جاتی ہے اور کونسی اندھیری غار منہ پھاڑے ہماری منتظر ہے۔ جون ایلیا کے شعر پر اختتام کو دل چا رہا ہے
 میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوںکہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

ای پیپر دی نیشن