کسان کارڈ پر نواز شریف کی تصویر ہائی کورٹ میں چیلنج۔
اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو کسی بھی عوامی فلاحی امدادی پروگرام کے کارڈ ہوں یا تھیلے۔ ان پر کسی سیاسی رہنما کی تصویر نہیں ہونی چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ہر سیاسی جماعت ایسا کرتی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ ہوں یا انصاف ہیلتھ کارڈ۔ یہ سب ان جماعتوں کے اشتہاری بینر بنے ہوئے ہیں جنہوں نے یہ جاری کئے ہیں۔ اب یہی صورتحال کسان کارڈ پر بھی نظر آ رہی ہے جس پر اطلاعات ہیں کہ نواز شریف کی تصویر لگی ہے۔ یہ سب کارڈ حکومت پاکستان کے خزانے سے جاری ہوتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو ، عمران خان یا نواز شریف اگر اپنے پلے سے یہ کارڈ دے کر اس کے اخراجات برداشت کرتے ہیں تو پھر ان کا حق ہے کہ ان کی تصاویر لگی ہوں۔ اگر حکومت پاکستان کے پلے سے یہ پیسے یا امداد ملنی ہے تو ان تمام کارڈز پر صرف بانی پاکستان کی تصویر یا پاکستان کا قومی پرچم ہونا چاہیے کیونکہ یہ انہی کی وجہ سے مل رہے ہیں۔ خیر سے ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین ارب پتی ہیں وہ اور کچھ نہیں تو کم از کم چائے کی پتی والے ڈبے پر اپنی تصویریں لگا کر وہی مفت تقسیم کر کے اپنا شوق پورا کر لیں یا پھر خوراک کے پیکٹ بنا کر اپنی فوٹو لگا کر ثواب کما لیں۔ یہ بہتر ہے۔ اس طرح دونوں کام ہوں گے ثواب بھی اور پبلسٹی بھی۔ اب یہ کیس عدالت میں ہے کہ نواز شریف کی فوٹو والے کارڈ پر جو خرچہ آیا ہے ان سے وصول کیا جائے تصویر ہٹائی جائے۔ تو ٹھیک ہے پھر باقی سارے کارڈ بھی سادہ ہونے چاہئیں جن کو اپنے لیڈروں کی پبلسٹی عزیز ہے وہ اپنے پلے سے کوئی ایسی سکیم نکالیں کہ لوگوں کو فائدہ ہو اور ان کے لیڈروں کی جے جے بھی ہو۔ باقی سب جانتے ہیں ہر جماعت اپنے دور کے کسی بھی فلاحی کام کو اپنے لیڈروں سے منسوب کر کے یا ان کی تصاویر والے کارڈ چھاپ کر عوام کو لبھاتی ہے۔ ہر دور میں یہی ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے نجانے کب تک یہ ہوتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭
بیوی کو بھوت یا بدروح کہنا ظلم کے مترادف نہیں۔ بھارتی عدالت۔
لگتا ہے یہ خاتون بھوت اور بدروح سے بہت خوفزدہ تھی یا پھر وہ کسی بھوت یا بدروح کو دیکھ چکی تھی۔ اس لیے وہ عدالت میں جا پہنچی کہ بیوی کو بھوت یا بدروح کہنے سے شوہر کو روکا جائے، یہ ظلم ہے۔ بھارت کے توہم پرست معاشرے میں تو چڑیلوں، ڈائنوں کے نام پر آج بھی بے شمار عورتیں قتل کی جاتی ہیں۔ صدیوں پہلے تک یورپ میں بھی یہ وبا عام تھی اور ڈائن و چڑیل اور جادوگرنی کہہ کر عورتوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا اور یہ سارا کام وہاں کے چرچ کی مرضی سے ہوتا تھا۔ بھارت میں جہاں ہر عجیب و غریب چیز کو تقدس دیا جاتا ہے حتیٰ کہ عجیب الخلقت جانوروں کی بھی پوجا ہو تی ہے۔ وہاں ابھی تک لوگ بھوت پریت سے ڈرتے ہیں مگر شاید کسی مرد کو بھوت یا بددروح کہہ کر مارا یا جلایا نہیں گیا صرف خواتین ہی تختہ مشق بنتی ہیں۔ شاید اسی بات پر غصہ میں آ کر یہ خاتون عدالت گئی ہیں کہ کیا وہ اتنی بری ہیں کہ اسے بھوت اور بدروح یعنی ڈائن اور چڑیل کہا جاتا ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں۔ یہاں عورتیں اس با ت کا زیادہ برا نہیں مناتیں۔ بس کسی خاتون کو چڑیل کہہ کر دیکھ لیں۔ فوری جواب ایسا ملے گا کہ واقعی احساس ہو گا کہ کوئی ڈائن چمٹ گئی ہے۔ اس ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لیے بہت سے شریف گھر والے اپنی گھر والیوں کو ان ناموں سے نہیں پکارتے اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں۔ ورنہ شادی کے بعد صبح جب دلہن ہاتھ منہ دھو کر آتی ہے تو خود دولہا کو پری اور بھوت کا فرق واضح معلوم ہو جاتا ہے مگر کیا مجال ہے جو کسی کے منہ سے ایک لفظ بھی اس بارے میں نکلتا ہو۔ سب اس نازک موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ ضرور کہتے ہیں، وہ بھی دل میں کہ قیامت کے دن بیوٹی پالر والیوں کا الگ ہی حساب ہو گا۔
٭٭٭٭٭
عرفان محسود پاﺅں کی انگلی سے 63 کلو وزن اٹھا کر گینز ورلڈ ریکارڈ بنانے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔
کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے نوجوان بہت ٹیلنٹڈ ہیں۔ زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں وہ نام نہ کما رہے ہوں۔ ملک میں یا ملک سے باہر عالمی سطح پر ہمارے نوجوان انفرادی طور پر اپنی کوشش سے ایسے ایسے کارنامے انجام دے رہے ہیں کہ اگر محکمہ کھیل کے زیر اہتمام یہ ایسا کر رہے ہوتے تو ہمارا یہ محکمہ آسمان سر پر اٹھا لیتا اور ڈھول بجا بجا کر اپنی کارکردگی بیان کرتا مگر ایسا کچھ بھی نہیں۔ اب مارشل آرٹس کے ہیرو اس نوجوان عرفان محسود کو دیکھ لیں اس نے پاﺅں کی انگلی سے 63 کلو وزن اٹھانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے جو بلاشبہ عجیب بات ہے۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ اٹلی کے مارسیلو کے پاس تھا جس نے پاﺅں کی انگلی سے 56 کلو وزن اٹھایا تھا۔ اب عرفان محسود نے یہ ریکارڈ قائم کیا ہے۔ مارشل آرٹس کا یہ پاکستانی کھلاڑی اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیرو ہے کہ وہ 8 برسوں میں 100 گینز ورلڈ ریکارڈ بنانے والے پہلے پاکستانی بن گئے ہیں۔ یہ اعزاز بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر وہ اتنے اعزاز حاصل کر پاتے ہیں۔ عرفان محسوس جیسے نوجوان اگر محکمہ کھیل اور حکومت کی توجہ حاصل کر لیں تو انہیں مزید آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس وقت ہمارے مارشل آرٹس کے کھلاڑی بہت سے عالمی مقابلوں میں اپنا نام پیدا کر چکے ہیں ان سب میں مشترکہ قدر یہ ہے کہ یہ سب اپنی فتح پر پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے اپنی فتح اپنے پیارے ملک پاکستان کے نام کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں انکو کوئی ادارہ پوچھتا ہی نہیں۔ یہ تو وہی گھر کی مرغی دال برابر والی بات ہے۔
حالانکہ ان کی وجہ سے پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند ہوتا رہتا ہے....
٭٭٭٭٭
فیصل آباد میں کم سن بچے سے زیادتی کا ملزم علماءکی مداخلت پر رہا۔
اب ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے۔ ابھی تک یہ سنتے آئے ہیں کہ علما کرام برائیوں کے خلاف جہاد کر رہے ہوتے ہیں مگر اب یہ معاملہ الٹا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ فیصل آباد میں گزشتہ روز ایک مولوی کو ایک کم سن بچے سے زیادتی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس پر علما کرام فوری طور پر حرکت میں آئے اس تیزی سے حرکت میں آنے پر ہمیں تو ”حرکت میں برکت“والی بات پر یقین آ گیا ہے۔ سب فقیہان شہر اس ملزم کو مظلوم ثابت کرنے پر تل گئے اور پولیس کے سامنے ڈٹ گئے کہ اس نے زیادتی نہیں کی ،کوشش کی تھی اس لیے زیادتی کا الزام غلط فہمی پر مبنی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے درندے کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا جاتا مگر یہاں نرمی دکھائی جا رہی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں کی خبر ہے کہ افغانستان میں زیادتی کے ملزمان کو سرعام سنگسار کرنے کے لیے جگہ مخصوص کر دی گئی ہے۔ جہاں انہیں رجم کیا جائے گا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں دیکھ لیں کیا غلط کام کرنے والے کو سزا دینے کی بجائے اسے بچانے کی کوشش ہو رہی ہے وہ بھی بھرپور طریقے سے۔ اب یہ بھی دیکھ لیں اس بچے کے والد نے میڈیا پر آ کر کہا ہے کہ میں اللہ کی خاطر ملزم کو معاف کرتا ہوں“ یہ ہوتی ہے خدا خوفی۔ اب ریاست خود اس کیس کی پیروی کر کے انجام تک پہنچائے اور کسی کو پولیس کی راہ میں رکاوٹ بننے نہ دے ورنہ آئندہ یہ چلن بن جائے گا اور ہر گروہ اپنے ملزم کے حق میں میدان میں آ جائے گا جس سے قانون کی حکمرانی متاثر ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭