پٹرولیم نرخوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ اور حکومتی دعوے

عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعووں کے ساتھ وجود میں آنے والی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے لٹر تک اضافہ کر کے یہ واضح کردیا ہے کہ اس کی طرف سے عوام کو کس قسم کے ریلیف کی توقع رکھنی چاہیے۔ اس سلسلے میں جاری اطلاعیئے کے مطابق، پٹرول 9.66 روپے اور ڈیزل 3.32 روپے فی لیٹر مہنگا کیا گیا ہے، البتہ مٹی کے تیل اور ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے۔ مٹی کا تیل 2.27 روپے فی لیٹر سستا ہوا ہے جبکہ ایل پی جی کی قیمت میں 6.44 روپے فی کلو کمی آئی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر ساٹھ ساٹھ روپے لیوی برقرار رکھی گئی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ لیوی کے نام پر حاصل کی جانے والی رقم وہ ہے جو وفاقی حکومت حاصل کرتی ہے اور عام آدمی کو یہ تک بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ یہ رقم کہاں خرچ ہوتی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا یہ سلسلہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط سے جڑا ہوا ہے اور ان شرائط پر عمل درآمد کر کے ایسی صورتحال پیدا کی جارہی ہے جس سے عوام زندہ درگور ہو رہے ہیں۔ اس بات کو زیادہ وقت نہیں گزرا جب انتخابی مہم کے دوران پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما انتخابی جلسوں کے دوران عوام سے وعدے کررہے تھے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ انھیں ہر ممکن ریلیف فراہم کریں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ بجلی 300 یونٹ تک فری ہوگی مگر اقتدار میں آنے کے بعد جو کچھ کیا جارہا ہے وہ سب ان دعووں کے برعکس ہے۔ اب ان کے پاس جواز یہ ہے کہ ہم تو ریلیف دینا چاہتے ہیں لیکن آئی ایم ایف نہیں مان رہا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن قبول کر کے ان کا بوجھ عوام پر مسلط کرنا ملک وقوم کو گروی رکھنے کے مترادف ہے۔
معیشت کے حوالے سے ہی ایک اہم خبر یہ ہے کہ رواں مالی سال ٹیکسٹائل برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 14.5 فیصد یا تقریباً 3 ارب ڈالرز کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث ملکی برآمدات متاثر ہونے کا وزارت تجارت کی سطح پر اعتراف موجود ہے۔ ایم آئی ایف کے مطالبے پر برآمدی شعبے کے لیے مراعات ختم کی گئیں اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل درآمد سے برآمدات کا تسلسل ٹوٹا۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر برآمدی شعبے کے لیے رعایتی نرخوں پر بجلی وگیس کی فراہمی ختم کرنے کے نتیجے میں پیداواری لاگت بڑھ گئی جس نے انڈسٹری کو بین الاقوامی طورپر مسابقت کے قابل نہیں چھوڑا اور یوں ملکی برآمدات پر منفی اثر پڑا۔ برآمدی شعبے کے لیے بجلی کی 9 سینٹ فی یونٹ اور ایل این جی کی 9 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر فراہمی روکنے سے برآمدات متاثر ہوئیں۔ مالی سال 2022ءمیں ٹیکسٹائل برآمدات ریکارڈ 19 ارب 30 کروڑ ڈالرز ہوگئیں تھیں تاہم یہ سلسلہ برقرار نہ رہ سکا اورمالی سال 2023ءمیں ٹیکسٹائل برآمدات کم ہو کر 16 ارب 50 کروڑ ڈالرز رہ گئیں۔ مراعات ختم کرنے سے تھوڑی بہت جاری برآمدات بند ہوگئیں تو ملک کیسے چلے گا؟
ایک طرف یہ سب کچھ چل رہا ہے اور دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ جو دعوے کررہے ہیں وہ اس صورتحال سے بالکل ہی مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ ماڈل ٹاون لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت کی مثبت پالیسیوں کی بدولت روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے، آنے والے دنوں میں عوام کو مزید خوشخبریاں ملیں گی، ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار وسیع کیا جائے گا، پسے ہوئے طبقے پر اضافی ٹیکسز کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، جلد ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ انھوں نے مزید کہاکہ جو ٹیکس چوری کرتے ہیں، وزیراعظم کا فوکس ہے کہ بوجھ ان پر ڈالا جائے جو اسے برداشت کرنے کی سکت رکھیں، ٹیکس نیٹ کو بڑھانا مقصود ہے، غریب آدمی پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنا مقصود نہیں، بہت بڑے بڑے کاروباری لوگ کچی رسیدوں پر کام کرتے ہیں اور ٹیکس چوری کرتے ہیں جس کی وجہ سے تمام بوجھ عام آدمی پر پڑتا ہے، اس لیے بلیک اکانومی کا خاتمہ کیا جائے گا، فرض شناس افسران کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور کرپٹ عناصر کا خاتمہ کیا جائے گا۔
عطا اللہ تارڑ نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ 30 اپریل تک وزارتِ تجارت کو کابینہ میں قومی صنعتی پالیسی منظور کرانے کا ہدف دیا گیا ہے۔ آئی ٹی ایکسپورٹ کو بڑھایا جائے گا، پے پال جیسی سہولیات کو فعال کرنا اور ملک میں جدید ڈیجیٹل نظام لانا اہم اہداف ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ میں خود احتسابی کا نظام متعارف کرایا جائے گا۔ واٹس ایپ، فیس بک، انسٹا گرام وغیرہ کے دفاتر پاکستان میں کھولنے کے لیے کوشاں ہیں، اس سے بیروز گاری کا خاتمہ ہو گا ، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پہلی مرتبہ وزارتوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے تحریری طور پر ہر وزارت کو قلیل المدت، درمیانی مدت اور طویل المدت اہداف دیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات جو دعوے کررہے ہیں ان سب کی تصدیق کے لیے ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ ان پالیسیوں اور اقدامات کا عوا م پر کیا اثر ہورہا ہے اور پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس وغیرہ کی قیمتیں بڑھنے سے اندازہ ہورہا ہے کہ عطا اللہ تارڑ کے دعوے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ حکومت اگر واقعی عوام کو ریلیف دینے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے ایسی پالیسیاں اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے جن کے ذریعے عوام کو قبرستان کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ حکمران اشرافیہ اگر اس سلسلے میں واقعی کچھ کرنا چاہتی ہے کہ تو اپنی مراعات ختم کر کے عوام کو ریلیف دینے کا سوچے۔

ای پیپر دی نیشن