لاہور (خبر نگار) 6 ججوں کے خط کے معاملہ پر ہائیکورٹ بار کے زیراہتمام وکلاء کنونشن ہوا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ نے کہا چھ ججوں سمیت دیگر جج جو ضمیر کی آواز سن کر فیصلے دیتے ہیں وہ ہمارے ہیرو ہیں، ایسے باضمیر ججز ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں، وکلاء کی بڑی تعداد کنونشن میں شریک ہوکر اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں، اب امید کی نئی صبح طلوع ہونے جا رہی ہے، اس میں سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ ہم اس امید کی صبح کو لیکر آئیں گے، آنے والی نسلوں کو بتائیں گے جب یہ نظام بدلا تو ہم بھی اس میں شریک تھے۔ سابق صدر عارف علوی نے کہا میں ایک عام شہری ہوں، میرے لیے پاکستان کا آئین بڑی اہمیت رکھتاہے، ریاست مدینہ کا ذکر کیا تو لوگوں نے مذاق اڑایا، یہ ہمارے دین میں بھی ہے آپ کوشش ضرور کریں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ ظالم کے ظلم کو روکیں، میری خواہش ہے پاکستان وہ بنے جس کی بنیاد قائد اعظم نے رکھی، جس کی بنیاد بانی پی ٹی آئی نے رکھی، لوگوں کو انصاف دو، خواتین کے ساتھ انصاف کرو، قاضی ابی عمر جب تیونس گئے تو انہوں نے کہا میرا کل اثاثہ تین چیزیں ہیں، جب وہ ریٹائرڈ ہوا تو اس نے آ کر کہا میرے پاس وہی تین چیزیں ہیں، پاکستان میں کسی کو اثاثوں کا سوال کرو تو وہ کہتے ہیں بات یہاں سے شروع نہیں ہوتی، یہاں پر آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ ہوتی ہے، آپ کی اور آپ کی اولاد یا بیوی کی گفتگو ہو اور اس کو ریکارڈ کرلیا جاتا ہے، یہ معاشرہ تباہ کیا جا رہا ہے، پاکستان کے وکلاء جدوجہد کریں اور اس نظام کو بدلیں، پاکستان میں جمہوریت حادثاتی طور پر آئی ہے، پاکستان میں جب تک انصاف کا بول بولا نہیں ہوتا تو تب تک ہم آگے نہیں بڑھیں گے، عوامی مینڈیٹ کی قدر کی جائے، پاکستان سے انصاف بھی یہیں سے شروع ہوگا، بانی پی ٹی آئی کو انصاف فراہم کیا جائے، بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے۔ کنونشن کے انعقاد کے بعد ججوںکے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وکلاء نے لاہور ہائیکورٹ بار سے جی پی او چوک تک ریلی نکالی۔ وکلاء نے ریلی میں ججز کے حق میں نعرے بازی کی۔ سینئر قانون دان حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو فوری طور پرججز کے خط پر ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا۔ حامد خان نے چیف جسٹس پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اتنے بڑے حادثے پر آپ نے وزیراعظم کو بلوا کر مشاورت کی، کیا کبھی ملزم سے بھی کسی نے مشورے کیے؟۔ آپ ملزموں کے ساتھ بیٹھ کر فیصلے کرتے ہو، ہائیکورٹ کے چھ ججز کو یقین دلاتا ہوں پورے پاکستان کے وکلاء آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، لاہور ہائیکورٹ کے ججوں کو بھی بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے بھی خوف کی علامت میں ہورہے ہیں۔ جسٹس شاہد جمیل کا استعفیٰ اس کی واضح مثال ہے۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا چھ جج انصاف مانگ رہے ہیں اور آپ نے صرف ایک ریٹائرڈ جج کو ذمہ داری دے دی، یہ ہم نہیں ہونے دیں گے، تصدق حسین جیلانی کو حساس اداروں کے کہنے پر ایڈووکیٹ جنرل بنایا گیا تھا، تصدق حسین جیلانی نے نواز شریف کی نااہلی کو ختم کیا، وکلاء کو اتحاد کرنا ہوگا، اسٹیبلشمنٹ ہر ادراے پر چھائی ہوئی ہے، اسٹیبلشمنٹ نے جعلی حکومت کو ہم پر مسلط کیا ہے، جعلی وزیراعظم اپنے حلقے سے ہارا ہوا ہے، خدارا ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے، یہ کیسا چیف جسٹس پاکستان ہے؟۔ چیف جسٹس پاکستان کو وزیر اعظم سے ملاقات نہیں کرنا چاہیے تھی، چیف جسٹس پاکستان کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کی کورٹ میں ہائی پروفائل کیس زیر سماعت ہیں، اگر چیف جسٹس وزیر اعظم سے ملاقات کرے گا تو وہ کیسے میرٹ پرکیسوں کا فیصلہ کرے گا؟۔ میں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی ہے، کیا ہم آزاد ہیں؟ پہلے بھٹو کو پھانسی دیتے ہو پھر کہتے ہو وہ عدالتی غلطی تھی، خدارا اب پینتالیس سال نہ لینا انصاف کرو، نو مئی کے کیسز میں انصاف کیا جائے۔ سابق سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ یہ چھ ججز ہمارے ہیرو ہیں، وکلاء کبھی اس جانبدار کمیشن کو تسلیم نہیں کرتے، چھ حاضر سروس ججز کے معاملے کو انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا، سپریم کورٹ خود اس معاملے کی انکوائری کرے، عدلیہ کے اندر کیوں مداخلت کی جارہی ہے، سپریم کورٹ ان اداروں کے لوگوں کو طلب کرے۔