گھمبیر مسائل کا فوری حل … (۱)

Aug 02, 2009

میجر جنرل (ر) شفیق احمد اعوان
میجر جنرل (ر) شفیق احمد اعوان ..........
ہرگھر، شہر، علاقہ، ملک یا دنیا میں مسائل کا ہونا قدرت کا کرشمہ ہے۔ ان مسائل کو جتنے چھوٹے لیول پر حل کر دیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ مسائل کا پھیل جانا کم عقلی، نالائقی، غلط عملی یا بے عملی کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہ پھیلاؤ وبائی امراض کی طرح کئی گنا زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ جب تک اسے روکا نہ جائے جب تک قدرت خود ہی تباہی کرکے ختم نہ کرڈالے۔ پاکستان کے بنیادی طور پر مسائل اتنے کم تھے اور وسائل اتنے زیادہ کہ اندرون ملک انہیں حل کرنا مشکل نہیں تھا۔ لیکن اس ملک کی سراسر نالائقی ہے کہ ہم اپنے معمولی قسم کے معاملات کو بھی حل نہ کرسکے۔ اب ہمارے مسائل کئی گنا پھیل گئے ہیں اور انہیں حل کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اب ہمارا ملک بین الاقوامی زد میں آچکا ہے جس میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا عمل دخل نمایاں طور پر سامنے آچکا ہے ہم دوراہے پر پہنچ گئے ہیں جہاں یا تو امریکہ کے تابع ہوکر چلیں اور یا اس سے چھٹکارا حاصل کرکے دوسرا راستہ اختیار کریں۔ چونکہ یہ گھڑی مشکل ترین شکل اختیار کرچکی ہے اسلئے فیصلہ صرف ارباب اختیار کا نہیں۔ نہ ہی سیاسی پارٹیوں یا دینی جماعتوں کا ہے بلکہ یہاں پوری قوم نے فیصلہ دینا ہے۔ یہ گھڑی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ 1940ء میں تھی جب قائداعظمؒ اور انکے ساتھیوں نے پاکستان کا دو قومی نظریہ کے تحت علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا تھا یا جب 1946ء میں یونینسٹ اور پاکستان کے درمیان ریفرنڈم ہوا تھا‘ اب کے سوال ہے ’’پاکستان بچاؤ‘‘ یا’’پاکستان کو ٹوٹنے دو۔‘‘ نعوذ باللہ!
امریکی راستہ:۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طاقت، انتظامی صلاحیت ذہانت دہشت، دولت اثرورسوخ کو دنیا مانتی ہے۔ وہ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور ہے۔ دنیا کے دوسرے امیر ترین ملک، یورپین، نیٹو ممالک سب امریکہ کے حلیف ہیں اور پہلی دنیا کہلاتے ہیں۔ ان میں تقریباً سب ممالک پرانے نوآبادیاتی نظام کے مالک تھے جواب تقریباً چار درجن ممالک پر مشتمل ہیں۔ انکا مقصد اپنے ملکوں کو پُرامن اور خوشحال بنانا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ تیسری دنیا کے نالائق ترقی پذیر ممالک یا نااہل غیر ترقی یافتہ ممالک پر تسلط جمایا جائے‘ انہیں ہر ممکن طریقے اختیار کرکے exploit کیا جائے‘ یہ جرم بالواسطہ کیا جائے یا بلاواسطہ کوئی رکاوٹ نہیں۔ عراق پر قبضہ کریں یا سوڈان کے صدر کو مجرم ٹھہرائیں کوئی قدغن نہیں۔ اس ٹولے کو اگر ’’علی بابا اور پچاس ڈاکو‘‘ کہا جائے تو کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ہوگی۔ اس بین الاقوامی ٹولے میں اگر کوئی ملک شامل ہوجائے اور اسے حقیقی حصہ دار بنا دیا جائے تو اسکے وارے نیارے ‘ دیکھنا یہ ہے کہ اسے کیا قیمت ادا کرنی پڑیگی اور پھر بھی اسے برابری کا مقام میسر ہوگا یا نہیں۔ تیسری دنیا میں سے ہندوستان سے اس ٹولے کی ممبری لے لی ہے اور اسے مراعات عزت اور سہولیات میں برابری کا مرتبہ حاصل ہے جبکہ ترکی کو Nato کا ممبر ہوتے ہوئے بھی وہ مقام نہیں مل سکا ہے۔ پاکستان اس ٹولے کا ممبر بننے کیلئے حد سے زیادہ جھک چکا ہے لیکن اسے بار بار دھتکارا گیا ہے جو مندرجہ ذیل چند واقعات سے روزروشن کی طرح عیاں ہے۔
الف۔ 1999ء میں جب صدر کلنٹن ہندوستان آئے تھے تو پاکستان کیساتھ توہین آمیز سلوک کیا تھا۔ جبکہ ہندوستان کیساتھ قربت اور دوستانہ رویہ۔
ب:۔ 9/11 کے بعد صدر پاکستان پرویز مشرف کو تو ذاتی طور پر خوب سراہا گیا اور پاکستان کو Non Nato Ally جیسے بے معنی القابات سے نوازا گیا لیکن جب ہندوستان کیساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ کا وقت آیا تو امریکہ نے پاکستان کیساتھ ایسا معاہدہ کرنے سے صاف انکار کردیا۔
ج:۔ پاکستانی قوم کی مخالفت کے باوجود ہماری خود مختاری کی پرواہ کئے بغیر ڈرون حملے کئی سالوں سے جاری ہیں اور ہمارے باشندوں کو سینکڑوں کی تعداد میں قتل کیا جاچکا ہے۔
د:۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کیلئے نئے امریکی صدر اور برطانیہ کے وزیرخارجہ کی نشاندہی کے باوجود اب صاف انکار ظاہر کرتا ہے کہ یہ ٹولہ اس خطے میں صرف وہی کریگا جو ہندوستان چاہے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی غیر جمہوری اقدامات اور مظالم جن سے تقریباً ایک لاکھ کشمیری مارے جا چکے ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں کا پانی روکنے کے اقدامات، یہ سب علی بابا اور پچاس ڈاکوؤں کو معمولی نوعیت کے واقعات لگتے ہیں اور انکے میڈیا میں شازونادر جگہ پاتے ہیں لیکن بمبئی میں ایک مبینہ غیر سرکاری تنظیم کا حملہ جس میں تقریباً آٹھ درجن لوگ ہلاک ہوئے وہ زیادہ آہم مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ اب انہیں کی پشت پناہی میں ہندوستان کہتا ہے کہ کشمیر پانی کو بھول جاؤ اور بمبئی کی بات کرو ورنہ سی بی ایم کی کوئی ضرورت نہیں۔ مطلب یہ کہ ورنہ ہمارے غیض وغضب کا انتظار کر۔ پاکستان کو طفل تسلیاں دینے کیلئے لفظ کشمیر علی بابا اور پچاس کا ٹولہ کبھی کبھی زبان پر لانے کو کافی سمجھتے ہیں۔
ر۔ علی بابا اور پچاس ڈاکوؤں نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیاں عروج پر منظم کررکھی ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار خصوصاً افواج پاکستان نے ان ملک دشمن کاروائیوں کی نشاندہی کی ہے لیکن ان کو ختم کرنے کیلئے کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ گویا کہ وہی تخریب کاری کرواتے ہیں اور وہی ہم پر تخریب کاری کی انگلی اٹھاتے ہیں۔
س۔ پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں پر قبضہ یا انہیں برباد کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں جن میں علی بابا کا رول سرفہرست ہے۔ مقصد ان اثاثوں کو غیر محفوظ گردان کر قبضے یا بربادی کا جواز پیدا ہوجائے۔
ص۔ پاکستان کی آئیڈیالوجی ہمارا دین جو ہماری اساس ہے اسے امریکہ اور یورپین ممالک میں ملعون و مطعون کیا جارہا ہے ہمارے پیارے نبی کریمﷺ کی اور قرآن کریم کی قصداً بے حرمتی کی گئی ہے۔ جعلی ویڈیو دکھا کر ہمارے معاشرے کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ (جاری ہے)
مزیدخبریں