سپریم کورٹ میں انیس سو اکہترسے لے کراب تک معاف کروائے گئے دو سوچھیانوے ارب روپے کے قرضوں کی تفصیلات پیش کردی گئیں۔

جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ کی جانب سے مختلف بنکوں کی طرف سے معاف کئے گئے قرضوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران دیئے، ان کا کہنا تھا کہ ساٹھ سال سے جاری اس لوٹ مار میں ہر ایک نے اپنا حصہ وصول کیا لیکن اب قوم کو بچانے کے لئے اس لوٹ مار کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا۔ اس سے پہلے سماعت کے موقع پر سٹیٹ بینک کی طرف سے اقبال حیدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت کے حکم کے مطابق دوسو چھیانوے ارب روپے کے معاف کروائے گئے قرضوں کی تمام تر دستاویزات سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں جمع کروا دی گئی ہیں۔ سماعت کے دوران عدالتی معاون عبدالحفیظ پیرزادہ نے فاضل بینچ کو بتایا کہ ان دستاویزات کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جن افراد نے قرضے واپس کئے ان کو سزا دی گئی اور جنھوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ان کے قرضے معاف کردیئے گئے۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر لوٹی گئی قوم کی دولت واپس کردی جائے تو ہم یہ کیس ختم کر دیں گے۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس خلیل الرحمان رمدے اورجسٹس غلام ربانی پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ مختلف بینکوں کی طرف سے معاف کئے گئے قرضوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کررہا ہے ۔عدالت نے مزید سماعت ستمبر کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی.

ای پیپر دی نیشن