ذرا بتائیے کہ اگر ایک مریض کی حالت تشویشناک ہو اور اسکے معالجین بار بار تشخیصی رپورٹیں ہی لکھی جائیں مگر علاج کی سبیل نہ کریں تو کیا وہ مریض جانبر ہوگا؟ ہرگز نہیں! آپ اس کے سرہانے کھڑے اسکی بیماریوں کے نام دہرانے سے اسکی روح تو فنا کرسکتے ہیں مگر اسکا علاج نہیں کرسکتے۔ وطن عزیز کی حالت بعینہ اس مریض کی سی ہے۔ آپ کسی سیمینار میں چلے جائیں، کسی سیاستدان کی تقریر سن لیں، کوئی ٹاک شو دیکھ لیں، کسی سکہ بندکالم نویس کا کالم پڑھ لیں، سب بیماریوں کے نام دہرا رہے ہیں اور مریض کی روح فنا کررہے ہیں مگر کوئی علاج کا بیڑہ اٹھانے کو تیار نہیں۔ پوری دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ حکمران خود ایسے منحوس بیان دیں کہ ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے اور ملک ٹوٹنے والا ہے۔ اگر ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے تو حضورِ والا آپ کیوں بیٹھے ہیں؟ جائیے گھر بیٹھئے، خطرہ موجود ہے تو وزیر داخلہ کیوں گنگ ہے، وہ خطرات سے نمٹ نہیں سکتا تو استعفیٰ دے۔ بیرونی مداخلت ہے تو افواج کس مرض کی دوا ہیں، لاقانونیت ہے تو قانون کس لئے ہے۔ کرپشن ہے تو احتساب کس نے کرنا ہے۔ افسوس ہے ان حکمرانوں اور مسند نشینوں پر کہ جو اختیار اور طاقت کے ہوتے ہوئے بھی قوم کو صرف مسائل اور بیماریاں گنواتے ہیں اور انکا علاج نہیں کرسکتے۔
دوسری طرف وہ حکومتی اتحادی پارٹیاں ہیں کہ جو اپنی حلقہ بندیوں کے تحفظ کیلئے شہروں میں لاشیں بکھیر رہی ہیں۔ ایک سانس میں ایک پارٹی قائد اتحاد و یگانگت پر زور دیتا ہے اور دوسرے ہی سانس میں ایک اور قومیت کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرا کر اتحاد و یگانگت کے تابوت میں کیل ٹھونک دیتا ہے۔ کون لائیگا اتحاد و یگانگت؟ مضحکہ خیزی کی انتہا ہے کہ پاکستان کے 62 فیصد آبادی پر مشتمل صوبے پر حکمران پارٹی کا قائد اپنے 62 فیصد عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے کرپشن اور لاقانونیت پر ٹسوے بہاتا ہے۔ میرے بھائی تم اس 62 فیصد کو ہی اچھا پاکستان دیدو، کیا عورتوں کی طرح نیر بہانے اور کوسنے دیتے ہیں۔پھر وہ پارٹیاں ہیں کہ جو خود کو اپوزیشن تصور کرتی ہیں اور انکے مولانا فضل الرحمن، عمران خان، منور حسن میڈیا پر غیظ و غضب دکھاتے اور مسائل گناتے نظر آتے ہیں مگر عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ بلوچستان سلگ رہا ہے تو جاﺅ کوئٹہ میں امن دھرنا دو، تربت اور مکران کے لاپتہ افراد کے آنسو پونچھو، مسخ شدہ ملنے والی لاشوں کے ورثاءکے ساتھ کندھا ملاﺅ، کرپشن ہے ہمیں معلوم ہے، جاﺅ اور کرپٹ وزیروں کے استعفوں تک انکے دفاتر کے باہر دھرنا دو۔ کراچی جل رہا ہے ہم جانتے ہیں، تو جاﺅ وفاقی اور صوبائی وزرائے داخلہ کے استعفے مانگو، شہر میں امن کا مارچ کرو۔اور مرے پر سو درے! وہ نیم حکیم انیکر پرسن اور بزعم خود تجزیہ کار ہیں کہ جن کو مریض کی بیماریاں گنانے سے فرصت نہیں، سارا دن کرپشن پر بھاشن تو دے سکتے ہیں مگر ان کرپٹ عناصر کے نام نہیں بتا سکتے۔ منافع خوری پر بین ڈال سکتے ہیں مگر اسکے خلاف سڑک پر نہیں آسکتے۔ حکومت پر طنز و تشنیع کرسکتے ہیں مگر انکے خلاف عدالتوں میں نہیں جاسکتے۔ تعلیم کی کمی پر گھنٹوں بول سکتے ہیں مگر اپنی جیب سے سکول نہیں بنوا سکتے۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں، ہمیں ادراک ہے کہ صورتحال ابتر ہے مگر خدارا اب یہی باتیں بار بار نہ بتاﺅ بلکہ انکے حل کیلئے قدم اٹھاﺅ۔ ہمیں مرض کا علم ہے، ہمیں علاج کی ضرورت ہے، مرض کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں، مگر پھر وہی سیمینار، وہی ڈسکشنز، وہی ٹاک شوز، کوئی اپنے حصے کی شمع جلانے کو تیار نہیں۔ سب اندھیرے پر برہم ہیں
شکوہ¿ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے
ستاروں کی روشنی میں عدلیہ انتظامیہ تنازعہ مقتدر قوتوں کی مداخلت پر ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ کراچی اور قبائلی علاقوں کی مخصوص صورتحال جوں کی توں نظر آرہی ہے۔
دوسری طرف وہ حکومتی اتحادی پارٹیاں ہیں کہ جو اپنی حلقہ بندیوں کے تحفظ کیلئے شہروں میں لاشیں بکھیر رہی ہیں۔ ایک سانس میں ایک پارٹی قائد اتحاد و یگانگت پر زور دیتا ہے اور دوسرے ہی سانس میں ایک اور قومیت کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرا کر اتحاد و یگانگت کے تابوت میں کیل ٹھونک دیتا ہے۔ کون لائیگا اتحاد و یگانگت؟ مضحکہ خیزی کی انتہا ہے کہ پاکستان کے 62 فیصد آبادی پر مشتمل صوبے پر حکمران پارٹی کا قائد اپنے 62 فیصد عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے کرپشن اور لاقانونیت پر ٹسوے بہاتا ہے۔ میرے بھائی تم اس 62 فیصد کو ہی اچھا پاکستان دیدو، کیا عورتوں کی طرح نیر بہانے اور کوسنے دیتے ہیں۔پھر وہ پارٹیاں ہیں کہ جو خود کو اپوزیشن تصور کرتی ہیں اور انکے مولانا فضل الرحمن، عمران خان، منور حسن میڈیا پر غیظ و غضب دکھاتے اور مسائل گناتے نظر آتے ہیں مگر عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ بلوچستان سلگ رہا ہے تو جاﺅ کوئٹہ میں امن دھرنا دو، تربت اور مکران کے لاپتہ افراد کے آنسو پونچھو، مسخ شدہ ملنے والی لاشوں کے ورثاءکے ساتھ کندھا ملاﺅ، کرپشن ہے ہمیں معلوم ہے، جاﺅ اور کرپٹ وزیروں کے استعفوں تک انکے دفاتر کے باہر دھرنا دو۔ کراچی جل رہا ہے ہم جانتے ہیں، تو جاﺅ وفاقی اور صوبائی وزرائے داخلہ کے استعفے مانگو، شہر میں امن کا مارچ کرو۔اور مرے پر سو درے! وہ نیم حکیم انیکر پرسن اور بزعم خود تجزیہ کار ہیں کہ جن کو مریض کی بیماریاں گنانے سے فرصت نہیں، سارا دن کرپشن پر بھاشن تو دے سکتے ہیں مگر ان کرپٹ عناصر کے نام نہیں بتا سکتے۔ منافع خوری پر بین ڈال سکتے ہیں مگر اسکے خلاف سڑک پر نہیں آسکتے۔ حکومت پر طنز و تشنیع کرسکتے ہیں مگر انکے خلاف عدالتوں میں نہیں جاسکتے۔ تعلیم کی کمی پر گھنٹوں بول سکتے ہیں مگر اپنی جیب سے سکول نہیں بنوا سکتے۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں، ہمیں ادراک ہے کہ صورتحال ابتر ہے مگر خدارا اب یہی باتیں بار بار نہ بتاﺅ بلکہ انکے حل کیلئے قدم اٹھاﺅ۔ ہمیں مرض کا علم ہے، ہمیں علاج کی ضرورت ہے، مرض کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں، مگر پھر وہی سیمینار، وہی ڈسکشنز، وہی ٹاک شوز، کوئی اپنے حصے کی شمع جلانے کو تیار نہیں۔ سب اندھیرے پر برہم ہیں
شکوہ¿ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے
ستاروں کی روشنی میں عدلیہ انتظامیہ تنازعہ مقتدر قوتوں کی مداخلت پر ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ کراچی اور قبائلی علاقوں کی مخصوص صورتحال جوں کی توں نظر آرہی ہے۔