دوسری طرف وہ حکومتی اتحادی پارٹیاں ہیں کہ جو اپنی حلقہ بندیوں کے تحفظ کیلئے شہروں میں لاشیں بکھیر رہی ہیں۔ ایک سانس میں ایک پارٹی قائد اتحاد و یگانگت پر زور دیتا ہے اور دوسرے ہی سانس میں ایک اور قومیت کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرا کر اتحاد و یگانگت کے تابوت میں کیل ٹھونک دیتا ہے۔ کون لائیگا اتحاد و یگانگت؟ مضحکہ خیزی کی انتہا ہے کہ پاکستان کے 62 فیصد آبادی پر مشتمل صوبے پر حکمران پارٹی کا قائد اپنے 62 فیصد عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے کرپشن اور لاقانونیت پر ٹسوے بہاتا ہے۔ میرے بھائی تم اس 62 فیصد کو ہی اچھا پاکستان دیدو، کیا عورتوں کی طرح نیر بہانے اور کوسنے دیتے ہیں۔پھر وہ پارٹیاں ہیں کہ جو خود کو اپوزیشن تصور کرتی ہیں اور انکے مولانا فضل الرحمن، عمران خان، منور حسن میڈیا پر غیظ و غضب دکھاتے اور مسائل گناتے نظر آتے ہیں مگر عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ بلوچستان سلگ رہا ہے تو جاﺅ کوئٹہ میں امن دھرنا دو، تربت اور مکران کے لاپتہ افراد کے آنسو پونچھو، مسخ شدہ ملنے والی لاشوں کے ورثاءکے ساتھ کندھا ملاﺅ، کرپشن ہے ہمیں معلوم ہے، جاﺅ اور کرپٹ وزیروں کے استعفوں تک انکے دفاتر کے باہر دھرنا دو۔ کراچی جل رہا ہے ہم جانتے ہیں، تو جاﺅ وفاقی اور صوبائی وزرائے داخلہ کے استعفے مانگو، شہر میں امن کا مارچ کرو۔اور مرے پر سو درے! وہ نیم حکیم انیکر پرسن اور بزعم خود تجزیہ کار ہیں کہ جن کو مریض کی بیماریاں گنانے سے فرصت نہیں، سارا دن کرپشن پر بھاشن تو دے سکتے ہیں مگر ان کرپٹ عناصر کے نام نہیں بتا سکتے۔ منافع خوری پر بین ڈال سکتے ہیں مگر اسکے خلاف سڑک پر نہیں آسکتے۔ حکومت پر طنز و تشنیع کرسکتے ہیں مگر انکے خلاف عدالتوں میں نہیں جاسکتے۔ تعلیم کی کمی پر گھنٹوں بول سکتے ہیں مگر اپنی جیب سے سکول نہیں بنوا سکتے۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں، ہمیں ادراک ہے کہ صورتحال ابتر ہے مگر خدارا اب یہی باتیں بار بار نہ بتاﺅ بلکہ انکے حل کیلئے قدم اٹھاﺅ۔ ہمیں مرض کا علم ہے، ہمیں علاج کی ضرورت ہے، مرض کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں، مگر پھر وہی سیمینار، وہی ڈسکشنز، وہی ٹاک شوز، کوئی اپنے حصے کی شمع جلانے کو تیار نہیں۔ سب اندھیرے پر برہم ہیں
شکوہ¿ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے
ستاروں کی روشنی میں عدلیہ انتظامیہ تنازعہ مقتدر قوتوں کی مداخلت پر ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ کراچی اور قبائلی علاقوں کی مخصوص صورتحال جوں کی توں نظر آرہی ہے۔