سپریم کورٹ کے 17 فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا....حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائیگا‘ مسلم لیگ (ن) پارلیمانی پارٹی

Aug 02, 2011

سفیر یاؤ جنگ
اسلام آباد (این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی نے مصالحتی رویہ ترک کر کے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے‘ اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حکومت نے اب تک سپریم کورٹ کے طرف سے دیئے گئے 17 فیصلوں پر عمل نہیں کیا‘ عدالت مسلسل انہےں وقت دے رہی ہے۔ یہ بات مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی میں جاری کئے گئے وائٹ پیپر میں بتائی گئی ہے۔ دو صفحات پر مشتمل وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے 16 دسمبر 2009ءمیں این آر او کے بارے میں تفصیلی فیصلہ سنایا لیکن یہ فیصلہ آنے کے ایک ہی ہفتہ کے اندر ہی سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود جسٹس خلیل الرحمن رمدے کو ریٹائرمنٹ کے بعد بطور ایڈہاک جج سپریم کورٹ تعینات کرنے سے حکومت نے انکار کر دیا۔ فروری 2010ءمیں صدر زرداری نے وزیراعظم گیلانی کی سفارش پر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی مسترد کر دیا کہ جس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو تعینات کیا جائے، حکومت نے جسٹس خواجہ محمد شریف کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا۔ جس کے بعد سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے حکومت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو کئی بار سوئس حکام کو 60 ملین ڈالر کی کرپشن کے بارے میں خط لکھنے کا کہا جس کے مرکزی ملزم صدر زرداری تھے لیکن حکومت نے اس پر بھی عمل نہیں کیا، اب تک سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے جانے والے فیصلے کو 19 ماہ کا عرصہ گذر چکا ہے۔ 30 مارچ 2010ءکو قومی احتساب بیورو کو 24 گھنٹے دیئے کہ وہ سوئس حکام کو خط لکھے یا چیئرمین نیب کو جیل بھیج دیا جائیگا لیکن 31 مارچ 2010ءکو اٹارنی جنرل انور منصور نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وزیر قانون بابر اعوان اس معاملے میں روڑے اٹکا رہے ہیں، سپریم کورٹ نے اسی دن تک حکومت کو مہلت دی کہ شام ایک بجے تک سوئس حکام کو خط لکھے لیکن آج تک حکومت نے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا اور اب تک اس معاملے پر ہزاروں گھنٹے گزر چکے ہیں۔ 2 اپریل 2010ءکو اٹارنی جنرل انور منصور خان نے استعفی دے دیا اور الزام لگایا کہ وزیر قانون بابر اعوان نے ان کو سوئس حکام کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق خط لکھنے سے روکا۔ 2010ءکو مئی میں ہی نئے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں بیان دیا کہ سوئس مقدمات کا معاملہ ختم ہو چکا ہے‘ اب خط لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس دوران حکومت نے نیب میں وسیع تبدیلیاں کیں اور جاوید ضیاءقاضی کو نیب کا قائم مقام چیئرمین مقرر کر دیا اور عرفان قادر کو پراسیکیوٹر جنرل تعینات کر دیا۔ سپریم کورٹ نے ان غلط تعیناتیوں کا نوٹس لیا اور یکم دسمبر 2010ءکو فیصلہ دیا کہ یہ دونوں تعیناتیاں غلط ہیں‘ حکومت کو حکم دیا کہ 30 دن کے اندر اندر نیا چیئرمین مقرر کیا جائے لیکن اس کے بعد بھی صدر زرداری نے ایک من پسند جیالے کو چیئرمین تعینات کر دیا اور مقررہ طریقہ کار بھی بروئے کار نہیں لایا گیا۔ سپریم کورٹ نے 21 ستمبر 2010ءکو سیکرٹری قانون کو عدالت میں تین روز کے اندر اندر پیش ہونے کا حکم دیا۔ سوئس مقدمات کی سمری پیش کرنے کا حکم دیا لیکن اس کے برعکس این آر او کے بارے میں سمری وزیراعظم کو بھیج دی گئی جس کو انہوں نے منظور کر لیا لیکن اس سمری کو سپریم کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا‘ سپریم کورٹ سے اس معاملے پر مزید مہلت مانگی گئی جس پر عدالت نے 2 ہفتے کی مزید مہلت دیدی۔ سٹیل ملز کیس میں 22 ارب روپے کی کرپشن ہوئی تھی اور اس کی تحقیقات بھی ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کر رہے تھے اس مقدمے میں بھی حکومت نے تفتیشی افسر تبدیل کر دیا اور ان کے تبادلے کے بعد سپریم کورٹ نے اس مقدمے کے بارے میں حکومت کی پیش کی گئی رپورٹ کو مسترد کر دیا اور عدالت نے وزیر داخلہ کو توہین عدالت کا نوٹس دیا۔ اس مقدمے میں صدر زرداری کے قریبی دوست ریاض لعل جی بھی ملوث تھا اور یہ مقدمہ ابھی تک التوا کا شکار ہے۔ حکومت کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب لاہور ہائیکورٹ نے مئی 2010ءکو رحمن ملک کے خلاف نیب کی اپیل مسترد کر دی اور صدر زرداری اپنے عہدے کی وجہ سے بچ گئے۔ سپریم کورٹ نے صدر زرداری کے ایک اور من پسند شخص سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احمد ریاض شیخ کو سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے پیشی کے دوران گرفتار کرا دیا تو اس کو جیل میں ملنے کیلئے پی پی پی کی اہم شخصیات گئیںلیکن ان کی رہائی کے بعد ابھی تک اس کے خلاف بھی مقدمہ التوا کا شکار ہے۔ حج آپریشن سکینڈل اور این آئی سی ایل سکینڈل جس میں کئی ارب روپے کے گھپلے ہوئے اور سپریم کورٹ نے ایک سابق آئی جی وسیم احمد کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا تو حکومت نے اس پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کہ کنٹریکٹ پر رکھے گئے ایسے افراد جو پہلے ریٹائر ہو چکے ہیں ان کے کنٹریکٹ منسوخ کئے جائیں، لیکن حکومت نے اس سلسلے میں عدلیہ کے فیصلے پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا بلکہ صرف 8 افسران کے کنٹریکٹ منسوخ کئے۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب سید دیدار حسین شاہ کو ہٹانے کا حکم دیا لیکن حکومت نے اس فیصلے پر بھی عمل نہیں کیا جس پر عدالت نے خود چیئرمین نیب کو عہدے سے فارغ کر دیا جس پر حکومت کے ایما پر سندھ میں ہڑتال کی گئی جو انوکھی مثال ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنے پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سہیل احمد کو حکومت نے او ایس ڈی (افسر بکار خاص) بنا دیا کیونکہ انہوں نے حسین اصغر کی بحالی کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ ظفر قریشی کی ایف آئی اے میں واپسی کیلئے حکومت کو سپریم کورٹ نے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیا لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا‘ حکومت ان کے ریٹائر ہونے کی مدت ختم ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے تحسین انور شاہ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا لیکن حکومت کے دباﺅ پر وہ بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ ان کو عدالت میں پیش ہونے کیلئے سات مرتبہ حکم دے چکی ہے لیکن تحسین انور شاہ پھر بھی عدالت کے حکم پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ حکومت نے ابھی تک سپریم کورٹ کے اس حکم پر بھی عمل نہیں کیا کہ ظفر قریشی کو این آئی سی ایل سکینڈل میں دوبارہ تفتیشی افسر تعینات کرے لیکن حکومت نے ان کو میڈیا پر بیان دینے کا الزام لگایا اس سلسلے میں وزیراعظم کو اس معاملے پر سمری ارسال کی گئی جس پر وزیراعظم نے ان کی معطلی کے احکامات جاری کر دیئے جس کا نوٹیفکیشن سیکرٹری داخلہ جاری کر چکے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) عدلیہ سے اظہار یکجہتی کیلئے قرارداد پارلیمنٹ میں لے کر آئیگی۔
وائٹ پیپر
مزیدخبریں