”الیکشن نہیں تبدیلی؟“

Aug 02, 2012

فضل حسین اعوان

میڈیا کسی دور کا ہو اور وہ جس شکل میں بھی ہو‘ اسکی خاص اہمیت اور کردار رہا ہے۔ آج کے جدید دور میں میڈیا کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے اور وہ کسی بھی موضوع‘ معاشرے‘ ادارے اور شعبے میں چار چاند لگانے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ آج میڈیا پر شدید تنقید کی جاتی ہے‘ اس میں میڈیا کا قصور نہیں‘ اگر کوئی برائی ہے تو اسکے استعمال اور اس کو استعمال کرنے والوں میں ہے۔ میڈیا کے مثبت کردار کے باعث آپ نے حکومتوں کو اپنی پالیسیاں بدلتے اور رائے عامہ کو ہموار و استوار ہوتے دیکھا ہے۔ منفی کردار سے کئی برائیاں جنم لیتی ہیں‘ معاملات بگڑتے ہیں۔ عوامی رائے میں کرب اور اشتعال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب نان ایشوز کو ایشوز بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے اپنے مسائل اور ایشوز کیا کم ہیں لیکن بحث ہو رہی ہوتی ہے ویناملک اور میرا کی بھارت میں گل کاریوں کی۔ ان معاملات پر علمائے کرام کو بھی بحث میں مبتلا اور بے عزت ہوتے دیکھا گیا۔ میڈیا کی عمومی رسوائی کی وجہ میڈیا کی باگ ڈور ناتجربہ کار مالکان اور پھر معاملات نوآموز اینکرز کے ہاتھ میں آجانا ہے۔ ان اینکرز کے پروگرامز میں ہلہ‘ گلا‘ گالم گلوچ اور دھینگا مشتی کے مناظر بھی دیکھے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اینکر نے شیطان کی طرح انگلی لگائی اور مہمانوں کو ایک دوسرے پر لپکنے اور جھپٹنے کیلئے چھوڑ دیا۔ یہ اینکرز خود اگر کسی پروگرام میں مل بیٹھیں تو سماں ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انکے پروگراموں میں۔ کوئی دوسرے کی نہیں سُنتا‘ اپنی اپنی کہے جا رہا ہوتا ہے۔ یہ اینکرز کی کم علمی‘ ناتجربہ کاری‘ جہالت اور کم عقلی کا نتیجہ ہے جسے وہ اپنی کامیابی گردانتے ہیں‘ ایسے اینکرز کے پروگرام سنجیدہ قارئین کیلئے اذیت ناک بنتے ہیں تو وہ پروگرام کیا چینل دیکھنے سے بھی تائب ہو جاتے ہیں۔ اپنے پروگرام کو کامیابی کی دلیل سمجھنے میں اینکرز کی معصومیت اور بھولپن کا بھی دخل ہے۔ ہمارے معاشرے میں منافقت بھی در آئی ہے۔ آپ نے جیسا بھی کالم لکھ دیا اور ٹی وی پر جو بھی کہہ دیا‘ آپ کے ساتھی اسے بوجوہ شاندار‘ بے مثال‘ اعلیٰ و عمدہ ترین قرار دینگے۔ آپکے سامنے تعریفوں کے پُل باندھتے ہوئے بیوقوف بنائیں گے اور پیٹھ پیچھے مذاق اڑائیں گے۔ معاشرتی رویے کے مدنظر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ساتھیوں اور واقف کاروں میں دل سے آپکی صلاحیت کو سراہنے والوں کی تعداد ایک فیصد سے زیادہ نہیں‘ باقی سب منافقت ہے۔ اصل فیڈ بیک وہ ہے جو غیرجانبدار لوگوں کی طرف سے آتی ہے، جن کا آپ سے کوئی مفاد وابستہ نہیں۔ پروگراموں کے دوران ہونیوالی دھینگا مشتی کو کتنے لوگ سراہتے ہیں؟ پھر یہ بھی جاری ہیں کیونکہ ساتھی اور خوشامدی ہلہ شیری دیتے ہیں،99 فیصد محض آپکو خوش رکھنے کیلئے تعریف کرتے ہیں اور اس کا تسلسل ٹوٹنے نہیں دیتے۔ جب تک میڈیا میں حادثاتی اور کمالاتی طور پر آنیوالے موجود ہیں میڈیا کی بدنامی جاری رہے گی۔ تاآنکہ وہ پروفیشنل بن جائیں۔ ان لوگوں کا پروفیشنل کہاں تک ممکن ہے جنہوں نے اپنے کاروبار کو تحفظ دینے اور مفادات کو مزید بڑھانے کے لئے میڈیا سنٹر کھول رکھے ہیں گویا یونہی امن کی آشا کا تماشا لگا رہے گا‘ معاشرہ گمراہی کی منزل کو حق و صداقت کی منزل سمجھ کر اسکی طرف گامزن رہے گا‘ البتہ قلیل ہی سہی‘ ایسے میڈیا گروپس بھی موجود ہیں‘ سچائی جن کا اوڑھنا بچھونا ہے جو معاشرے کی بُرائیوں‘ سیاست کے ناسُوروں پر نشتر زنی کرتے رہتے ہیں۔ میڈیا کی آبرو انکے ہی دم قدم سے ہے۔ اینکرز میں بھی کچھ سمجھدار ہیں جو ریٹنگ کے چکر میں پڑے بغیر اپنا کام کرتے ہیں۔ ان کے شاباش
آج میڈیا اس قدر وسیع ہو گیا ہے کہ اسکی حدود کا تعین ممکن نہیں‘ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ میڈیا حدود سے باہر ہو چکا ہے‘ کسی حد تک ایسا ہے جو فی الوقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ وسیع تر میڈیا سے مُراد خبروں اور اطلاعات کےلئے روایتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو ہے ہی اب غیر روایتی ”خودرو“ سوشل میڈیا بڑا فعال ہے۔ اس میں ویب سائٹس ‘ ای میل‘ فیس بک ‘ ٹوئٹر اور سکائپ وغیرہ ہیں۔ موبائل فونز بھی آج رائے عامہ کے سلجھانے یا بگاڑنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میسجز کے ذریعے خیراور شر کو اپنی مرضی سے پھیلایا جا رہا ہے۔ موبائل پیغامات کے ذریعے اچھے یا بُرے مقاصد روایتی میڈیا کے مقابلے میں کہیں بڑھ کر حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ موبائل میڈیا کو نیک مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کیلئے ایک کاوشِ مسلسل کی ضرورت ہے۔ غیر روایتی میڈیا نے اپنی حیثیت برما میں مسلمانوں پر بدھوں‘ بدھ فوج اور پولیس کے مظالم پوری دنیا پر آشکار کرکے منا لی ہے۔ آج ایک اور تحریک سوشل میڈیا پر شروع ہوئی ہے ”ہمیں الیکشن نہیں‘ تبدیلی چاہیے“ یہ خطرناک تحریک ہے جو ہمارے سیاست دانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر یہ روایتی میڈیا میں بھی آ گئی تو اس کی پذیرائی یقینی ہے پر بہت کچھ ہو سکتا ہے جو طالع آزماﺅں کیلئے تو خوشگوار ہو گا لیکن مروجہ جمہوریت اور جمہوریت دانوں کے لئے نہیں۔ غیر روایتی میڈیا پر اس جمہور دشمن تحریک کا مقابلہ کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ یہی تحریک شاید عوام کی زبان اور دل کی آوازہو!

مزیدخبریں