کہا جاتا ہے کہ روشنی نظام کائنات کو برقرار رکھتی ہے اور روشنی ہی نظام کو قوت بخشتی ہے اور روشنی کی زندگی کو فراوانی عطا کرتی ہے روشنی ہی ایمان کو بصیرت عطا کرتی ہے۔ روشنی نہ ہو تو انسان کا کائنات سے تعارف بھی نہ ہو۔ گھر یا انسان کا ہر لمحہ روشنی کا محتاج رہتا ہے انسان کی آنکھیں بند ہو جاتیں تو حیات کی روشنی کا چراغ مفلس کا دیا بن جاتا ہے۔ افراد ہوں یا اقوام افکار و عمل کی روشنی کے بغیر ان کا سفر حیات ذات کی گھاٹی میں اتر ختم ہو جاتا ہے افراد و اقوام کی روشنی کیا ہے؟ احساس و غیرت کا نام نور حیات ہے اقوام کے پاس احساس و غربت کی روشنی ہو تو بلندیوں کے سفیر پر شاہین کی طرز پر پرواز کرتی ہیں انہیں اقوام و ملل میں وہ مقام حاصل ہوتا ہے جو انسانی سر میں آنکھ کو حاصل ہوتا ہے یہ بھی سچ ہے کہ زندہ اقوام کے بصیرت آفریں لیڈران اقوام کی آنکھیں ہوتے ہیں جو ہمہ وقت روشنی کی طرف رہنمائی کرتی ہیں لیکن جن قوموں کے لیڈر بے بصیرت، بے بصارت اور بے صلاحیت ہوتے ہیں ان کی قومیں بھی اپاہج ہوتی ہیں، کشکول بردار ہوتی ہیں بے کس و ناکس ہوتی ہیں ان پر گدھوں کا حملہ ہر وقت جاری رہتاہے۔ افسوس بار بار افسوس کہ پاکستانی قوم کا شمار اسی بے نور فہرست میں کیا جا رہا ہے کہ جس کے لیڈر آنکھیں چشمے سمیت رکھتے ہیں لیکن باوجود تلاش بسیار کے ان کی آنکھوں میں احساس کے پانی کا وجود نظر نہیں آتا ہے وہ دل تو رکھتے ہیں لیکن ان کی دھڑکن سے سوائے تخت اور تخت برائے اولاد کے کوئی آواز برآمد نہیں ہوتی ہے۔ وہ صلاحیت تو رکھتے ہیں لیکن ان کی صلاحیت اپنے کارخانہ حیات کیلئے صرف ہوتی ہے پاکستانی قوم کا سانحہ ہے کہ مجرموں کو مجرموں میں بدلنے کیلئے فوراً آمادہ ہو جاتی ہے۔ اس قوم جوک بردار اور جنوں سوار کا سانحہ یہ بھی ہے کہ چکنی چپڑی ہوائی باتوں کو رزق آسمانی سمجھ کر قبول کرتی ہے ....
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے ۔۔۔۔ ہر شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
مئی کے انتخابات میں بازار سیاست کے پرانے سوداگروں نے دلالوں کی ایسی خوبصورت مبین بر مکر و فریب ٹیم تیار کی کہ لوگ بھول گئے کہ صر صر کیا ہے اور صبا کون ہے۔ لوگ خوش تھے کہ اب بلوچستان کی بغاوت کو لگام ڈالی جائے گی، لوگوں کو اطمینان تھا کہ سرحد میں امن کا پرچم بلند ہو گا لوگ خوش تھے کہ اب مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو جائے گا، لوگوں کو یقین تھا کہ اب بجلی چور اور گیس خور منصوبے دم دم توڑ دیں گے اور لوگوں کو یہ یقین تھا اتنا زیادہ تھا کہ کراچی کی روشنیاں بحال ہو جائیں گی اور شہر قائد کی حرمت پھر سے امن و سلامتی کی گود میں محفوظ ہو جائے گی، بھتہ خوروں کے ہاتھ بندھیں گے اور ظلم برداروں کے سر جھکیں گے اور پاکستان قائد کا پاکستان نظر آئے گا لیکن ایسا بالکل نہ ہوا۔ پاکستان کی محبت کا دم بھرنے والے کید و فریب کے سراپا بے نور اور بے بصیرت سیاستدانوں نے پاکستان کے دشمنوں کو بھی شرمندہ کر دیا ہے اور پاکستان کی سالمیت اور قوم کی غیرت کو ابھی تک وہ دشمن بھی اتنا متاثر نہیں کر سکے تھے جتنا ان مفلوج الذہن سیاستدانوں نے کر دیا ہے۔ پورے ملک میں امن و امان کی صورت حال نہایت مخدوش ہے، جیل، ہتھکڑی، گولی اور پولیس تو دہشت گردوں کے چھوٹے کھلونوں کا نام ہے۔ حکمران چین جاتے ہیں اور قوم ہر وقت ہی بے چین رہتی ہے۔ کراچی کی صورتحال پرایک طے شدہ خیال ان کا بھی اور ان کا بھی یکساں ہے کہ کراچی کی بدامنی میں کن کن قوتوں کا ہاتھ ہے کراچی میں روتے ہوئے کسی غریب کے سر پر ہاتھ رکھنا روایتی سیاستدانوں کے شیڈول میں شامل نہیں ہے۔ کراچی کی گلی گلی اور کوچہ کوچہ دہشت میں گرفتار ہے۔ کراچی کی خوفزدہ فضا نے روشنیوں کو اپنی منحوس گرفت میں لے رکھا ہے وہاں کا ایک خوانچہ فروش اپنی شام کی کمائی پوری گھر نہیں لے جا سکتا۔ وہاں کی دوشیزہ کی عفت و حرمت کا دوپٹہ کسی بھی حیا کی ضمانت فراہم نہیں کرتا۔ وہاں کے دوکاندار کا گلہ اس کا نہیں کسی انجانے بھتہ خور کا ہوتا ہے کراچی کا کارخانہ دار گورنمنٹ اور متوازی گورنمنٹ کو دو دفعہ ٹیکس دیتا ہے۔ کراچی کی مسجد میں ایک مولوی نہیں جرنیل بادشاہ ہوتا ہے، کراچی میں حق گو پاکستانیوں کو جنونی سمجھا جاتا ہے اور ان پر بہت سے قومی کامریڈ متحد ہو کر مامور کر دیئے جاتے ہیں کہ مناسب وقت پر ان کو بوری کی قبر میں بھر دیا جائے۔ ان مختصر الفاظ میں بیان کردہ حقیقت کی فہرست ملاحظہ کرنا ہو تو ان بے چارے ٹی وی اینکروں سے پوچھئے جوکراچی میں بیٹھ کر سانس کا بھتہ بھی دیتے ہیں اور ڈر ڈر کر اپنا نام بتاتے ہیں اور کام چھپاتے ہیں ۔ کیا پٹھان، کیا بلوچ اور کیا سندھی سبھی ہی باہر والے بھتہ پیر کی نیاز دیتے ہیں اور رہے پنجابی تو یہ لاہور میں پڑے پڑے بڑبڑاتے ہیں کہ ویکھ لیاں گے (دیکھ لیں گے) بھتہ خوروں سے سب ہی تنگ ہیں لوگوں نے انتخابات کا سہارا لیکر پہلوانوں کو ذرا وقفے کیلئے اجازت دی کہ تم پاکستان کش بھتہ پیر کی سرگرمیوں کو روکنے کا وعدہ کرو تو ہم تم کو ووٹ دیں گے پہلوانوں نے جواب دیا کہ کہ فکر مت کرو اور الیکشن کی مہم میں پورے جنگل کو بھتہ پیر کے کردار پر چڑھائی کیلئے آمادہ کر لیا۔ اب شیر سے لیکر موچھوں والے بلے تک بھتہ پیر کو کوسنے دیتے، غراتے آنکھیں دکھاتے پنجے نکال کر دکھاتے ہیں الیکشن کا مرحلہ گزرا نئے حالات پیدا ہوئے حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ آیا پھر صدارتی الیکشن کا مرحلہ آیا تو بھتہ پیر ڈنڈا لئے جنگل کے باہر دنگل کا میدان سجائے بیٹھ گیا اور آنکھیں گھما کر کہا کہ بتاﺅ کیا وقت ہوا ہے؟ اور کیسا وقت ہوا ہے؟ اسلام آبادی دستہ حکمران چلو میں پنجابی شیروں اور وزیروں کی فوج خوش الحان لئے بولا بندہ پرور اے پیر فرنگی اے آسرائے عاشقان کرسی ہم آپ تو بہت ہی پابند ہیں پیر فرنگی بولا یہ پابند کیا ہوتا ہے ذرا دوبارہ بولو سب مل کر بولے پابند وقت، پابند خواہش، پابند نسان اور پابند موقع اور قبلہ آپ تو بروقت تشریف لائے۔ ذرا ممنون کرم کیجئے کہ یہ جادہ چھڑی گھما کر حکم فرما دیجئے کہ کراچی کے سب خلفاءممنون حسین کو تاج بادشاہت پہنا دیں اور بندہ نواز آپ تو ابوالوقت ہیں کراچی کی گھڑیوں کی چھوٹی سوئی آپ سے پوچھ کر چلتی ہے اور بڑی سوئی کو ہم مل جل کر حرکت دیں گے۔ پیر صاحب بولے اچھا ہم بول دیں گے اور تم باقی لوگوں سے کہوں کہ اس خوشی میں بدھاوا گائیں اطلاعاتی حلقے نے خوب بدھاوا گایا۔ ایک موچھ دار بولے کہ بس یہ بدھاوا ہی ہے ہم کسی کے ماضی کو فراموش نہیں کرتے پیر صاحب بولے یہ رنگ میں بھنگ کون ڈالتا ہے؟ بڑے صاحب نے موچھ دار خادم کو سمجھایا کہ دیکھو یہ موچھ فیصل آبادی ہے کالا باغی نہیں ہے۔ نواب کالا باغ موچھ کو کیا بل دیتے تھے سیاسی سوداگروں کی کلائی مروڑ دیا کرتے تھے۔