” شہر یارِ اِعتکاف“۔ طاہر اُلقادری!

مسلم لیگ ن کے چیئر مین،راجا ظفر اُلحق نے صدارتی انتخاب 6اگست کے بجائے، 30جولائی کو کرانے کے لئے ،سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔جِس میں یہ مﺅقف اختیار کِیا تھا کہ۔” زیادہ تر ارکانِ پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی ،6اگست کو ، مسجدِ نبوی میں اِعتکاف میں بیٹھنے اور عُمرے کے لئے سعودی عرب میں ہوں گے“۔سُپریم کورٹ نے یہ درخواست منظور کر لی اور صدارتی انتخاب 30جولائی کو ہو بھی گیا ۔عربی زبان کے لفظ ۔” اِعتکاف“۔ کا مطلب ہے ۔”1۔ گوشہ نشِینی اختیار کرنا“۔2۔ ماہِ رمضان میں مسجد میں گوشہ نشِین ہونا۔اِعتکاف کرنے والے کو ۔” مُعتکف“۔یعنی گوشہ نشِین کہتے ہیں۔دُنیاکے بکھیڑوں سے یک سُو ہو کر ،کسی محفوظ مقام پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لئے مسلمان ۔مُعتکف ہوتے ہیں۔
11مئی 2013ءکو ہونے والے عام انتخابات ملتوی کرانے۔ لانگ مارچ کے بعد اسلام آبادمیں، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف کی حکومت سے ۔”میثاقِ جمہوریت دو نمبر“۔ کرنے ۔پھِر سُپریم کورٹ سے رُسوا ہونے۔ بعد ازاں اپنی۔” پاکستا ن عوامی تحریک“۔ کی طرف سے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بعد۔علّامہ طاہر اُلقادری نے، چُپ کا روزہ رکھ لِیاتھا ۔لوگ یہی سمجھے کہ علّامہ صاحب گوشہ نشِین ۔( عربی میں مُعتکف )۔ ہو گئے ہیں اور اب وہ، 5سال بعد۔ 2018ءکے انتخابات ملتوی کرانے کے لئے ، لاہور میں جلسہءعام سے خطاب اور لانگ مارچ کرکے ، مسلم لیگ ن کی حکومت سے ۔” میثاقِ جمہوریت تین نمبر“۔ کر کے و اپس کینیڈا چلے جائیں گے ،لیکن پتہ چلا کہ، علّامہ القادری، پھر پاکستان میں ہیںاور لاہور میں اپنی ۔” امامت “۔میں ۔” شہرِا ِعتکاف“۔ سجائے بیٹھے ہیں ۔یہ اطلاع مجھے لاہور سے ،طاہر اُلقادری کے پرانے دوست ۔پنجابی کے شاعر اور ادیب۔ جناب بیرا جی نے دی ۔حیرت ہے کہ لاہور میں رہ رہے، پنجابی کے سینکڑوں شاعروں اور ادیبوں کو، علّامہ صاحب کے شہرِ اِعتکاف کی خبرہی نہیں ۔اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ، دِسمبر2012ءاور جنوری 2013ءکی نسبت۔ علّامہ القادری کا پبلِسٹی اور ۔”سیلف پبلِسٹی“۔ کا نظام ناقص ہے ۔یہ ۔شہرِاِعتکاف ہے ۔یا ۔شہرِخموشاں؟۔
سب سے پہلے ۔” شہرِاِعتکاف “۔ کس صحابی۔ولی۔بُزرگ۔ یا۔ عالم دِین نے سجایا؟۔ اِس سلسلے میں میری معلومات، صِفر کے برابر ہیں ۔مجھے تو صِرف اِتنا ہی علم ہے کہ ۔” جب کوئی مسلمان ،عبادت کے لئے مسجد۔یا۔ کسی دوسری جگہ اِعتکاف میں بیٹھ جاتا ہے تو ،عبادت کے سِوا ۔کوئی اور کام نہیں کرتا اور نہ ہی کسی سے ،کچھ کلام کرتا ہے اوراُس جگہ سے ، حوائج ِ ضروری کے سِوا ،باہر نہیں نِکلتا ۔علّامہ القادری نے لاہور میں ۔” شہرِاِعتکاف“۔ تو سجا لِیا ہے ،لیکن شاید ،اُن کا شہرِ اِعتکاف ابھی مکمل طور پر سج نہیںسکا۔شاید 6اگست۔ (27رمضان)۔ کو سجے ۔ اِسی لئے علّامہ القادری نے، چیف الیکشن کمشنر (ر) فخر اُلدین ۔جی ۔ابراہیم کے استعفیٰ پر۔پاکستان عوامی تحریک ۔کے سربراہ کی حیثیت سے ۔” شہرِ اِعتکاف“۔ میں صحافیوں سے، خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ۔” عام انتخابات میں دھاندلی کو تحفظ دینے والے، فخر اُلدین ۔جی ۔ابراہیم کا استعفیٰ ایک مذاق سے کم نہیں “۔ علّامہ صاحب کی خبر کے ساتھ، حسبِ سابق ،اُن کی غُصّے میں بھرے ہُوئے چہرے والی، چار رنگی تصویر بھی چھپی ہے ۔حالانکہ کسی عالمِ دین کے لئے ،غُصّہ میں رہنا مناسب نہیں ہے ۔ ڈاکٹر کہلانے والے ، عامر لیاقت حسین بھی خود کو عالمِ دین کہتے ہیں ،لیکن اُن کے چہرے پرہر وقت مسکراہٹ سجی رہتی ہے ۔ ممکن ہے غُصّے میں بھرے رہنا ،علّامہ القادری کا ذاتی سٹائل ہو ۔شاعر نے کہا تھا کہ۔۔۔
” وہ غّصّے میں ، ہر وقت ،بھرے رہتے ہیں، مُجھ سے
 میں خوش ہوں ، کہ صد شُکر، توجہ تو، اِدھر ہے“
بیک وقت کینیڈا اور پاکستان کی شہریت ،یعنی دوہری شہریت کی طرح ادارہ ۔”منہاج اُلقرآن“۔اور ۔” پاکستان عوامی تحریک“۔ کی سیادت اور قیادت بھی، علّامہ طاہر اُلقادری، ساتھ میں رکھتے ہیں ۔ شہرِ اِعتکاف میں بھی ، پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کی حیثیت سے مُلکی سیاست میں بحث کرتے ہیں اور اُن انتخابات پر بھی تبصرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں ،جِن میں اُن کی عوامی تحریک نے حِصّہ ہی نہیں لِیا ۔یہ کیسی ۔” عوامی تحریک “ ۔ہے؟۔کہ علّامہ صاحب ، عوام پر اعتماد ہی نہیں کرتے اور نہ ہی عوام ،علّامہ صاحب پر۔ گوشہ نشِینی اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے مسلمانوں کے لئے جو ۔”شہرِا ِعتکاف“۔ سجایا گیا ہے ،وہاں صحافیوں کو مدعو کر کے ،سیاسی حالات پر گفتگو کرنا کیسے جائز ہو گیا؟۔12/11 فروری کو علّامہ طاہر اُلقادری کو الیکشن کمِشن کو تحلیل کرانے کے لئے، سُپریم کورٹ کے احاطہ میں داخل ہوتے تو، انہیں نیوز چینلوں پر،بیک وقت ہاتھ میں پکڑی تسبیح کو گھُماتے اور اپنے ساتھیوں سے باتیں کرتے ہوئے دِکھایا گیا۔یعنی وہ بیک وقت عبادت اور سیاست کرتے ر ہے ۔ آپ نے کئی سیاستدانوں کو یہ کہتے سُنا ہو گا کہ ۔” ہم تو عبادت سمجھ کر ،سیاست کرتے ہیں !“۔ علّامہ القادری ۔غوث اعظمؒ ۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی نسبت سے ۔” القادری“۔ کہلاتے ہیں۔ غوث اعظمؒ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔
” چشمِ تریک نیم ِ شب، گو اے خُدا ،در من نگر
 پس شا روزے، نظر را ،شصت و سہ صد، بر شُما “
یعنی۔”تُم آدھی رات کے وقت ،صِرف ایک بار ، اپنی چشمِ تر سے ،اپنے خُدا سے درخواست کرو کہ۔” مجھ پر نظر ہو!“۔ پھر تم فریادِ نیم شبی کے کرشمے تو دیکھو ۔ تم دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ رات دِن میں، تین سو ساٹھ بار تمہیں محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے“ ۔مَیں حیران ہوں کہ علّامہ طاہر اُلقادری آج 62 سال 5 ماہ اور14دِن کے ہو گئے ہیں۔ کیا انہوں نے اپنی گُزری ہوئی زندگی میں، ایک بار بھی ،آدھی رات کے وقت ،اپنی چشمِ تر سے ، اپنے خُدا سے درخواست نہیں کی کہ ۔” مُجھ پر نظر کرو!“۔ علّامہ القادری 1999ءسے ۔” قائدِا نقلاب“۔ کہلا رہے ہیں ،لیکن انقلاب ہے کہ، علّامہ صاحب کی پکڑ میں ہی نہیں آرہا ۔اُن کی ۔” رُوحانی قوت“۔ نے بھی کوئی کرشمہ نہیں دِکھایاتو،وہ اب ۔” شہرِ اِعتکاف“ سجا کر اور ۔” شہر یارِ اِعتکاف “۔ کا لقب اختیار کر کے کیاتیر مار لیں گے؟۔ شاعرِ سیاست کا، علّامہ القادری کے لئے پیغام ہے کہ۔۔۔
” ہو گیا ناکام تُو، کرتا نہیں پَر ،اعتراف!
 لَو لگا اللہ سے ،اے ” شہر یارِ اِعتکاف!“

ای پیپر دی نیشن