دو سال قبل جب میں جناب مجید نظامی کی خدمت میں اپنی کتابیں لے کر گئی تو انہوں نے نہایت خوشدلی سے مجھ سے کتابیں وصول کیں بلکہ میرے اصرار پر انہوں نے مجھے نوائے وقت میں کالم لکھنے کی اجازت بھی دی۔ میری تحریریں جب بھی انکی نظر سے گزرتیں مجھے طمانیت کا احساس ہوتا۔ وہ ہمت، جرات اور حوصلہ دینے کا درس جانتے تھے۔ شاید ان کی حوصلہ افزائی کا ثمر تھا کہ میری قلم میں روانی آتی گئی۔ انفرادی سطح سے ہٹ کر دیکھا جائے تو قوموں کی زندگی میں منفرد سوچ اور مضبوط قوتِ فکر نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے اسی قوت فکر سے وہ راہ متعین کی کہ جس پر چل کر اس راستے کا تعین کیا جا سکتا ہے جو معاشرے کو استحکام کے راستے پر ڈال دیتی ہیں۔ درحقیقت مضبوط قوت فکر اور متوازن سوچ انحطاط پذیری سے بقا کے راستے کو تلاش کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔ جناب مجید نظامی مرحوم کی سوچ کا محور اور نقطہ نظر بھی یہی تھا۔ ان میں ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے مقصد حیات اور سوچ کے زاویہ کو حق و صداقت اور کلمہ حق کیلئے مخصوص کر رکھا تھا۔ ”بقا اور فنا“ اور ”فنا و بقا“ کا تاریخی سرکل چلتا رہتا ہے۔ تاہم اس سرکل کا درمیانی سفر کٹھن، مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے۔ اس سفر میں مرد حق اور مرد مومن اپنے عمل، نظریات اور اصولوں سے اس منزل کا تعین کرتے ہیں جو دور ابتلا میں سایہ عافیت بن کر عوام کیلئے راحت کا پیغام لے کر آئے۔ جناب مجید نظامی ایسی ہی راہوں کے مسافر تھے۔ انہوں نے ان راہوں میں روشنی کی کرنیں امید اور حوصلوں کی وہ داستان رقم کی ہے کہ ان کے اقوال اور نقش قدم پر چلتے ہوئے کامرانی کا راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔
امام غزالی قوت فکر اور متوازن سوچ کے حامل افراد کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک قسم یہ ہے کہ مرد حق کی زندگی کا مقصد معاشرتی انصاف، جارحانہ رویوں اور آمرانہ فیصلوں کے خلاف ڈٹ جانا ہوتا ہے۔ خیر اور شر کی جنگ میں خیر کے منصب پر فائز یہ افراد قوم کا وہ عظیم سرمایہ ہوتے ہیں جن پر پوری قوم فخر محسوس کرتی ہے اور انکے جانے کے بعد انکے نظریات اور اصول کی پاسداری کرتی ہے اور ان افراد کے خیالات کی روشنی میں کلمہ حق کی بنیاد ڈالی ہے۔ قوم کی بقا اور حیات کیلئے تین عناصر لازمی حیثیت رکھتے ہیں۔ سیاسی، معاشی اور نظریاتی استحکام جناب مجید نظامی نے ان عناصر کو مضبوط ٹھوس اور واضح سمت عطا کی۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں چاہے مسئلہ کشمیر کا مستقل بنیادوں پر حل ہو یا آمرانہ اور جارحانہ رویوں کیخلاف انکی کاوشیں انکے اس ضمن میں ارشادات انکی حق گوئی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اقبالؒ امت کے اندر پختگی کے لئے ریاست کو ایک ایسا ادارہ قرار دیتے ہیں کہ جس کی بنیاد سماجی ترقی، روحانی اقدار، مادی فلاح اور انفرادی بہبود پر قائم ہو۔ انکے نزدیک جب کسی معاشرے میں مخصوص قانون اور نظریہ کو اپنا کر اس پر کاربند ہونے کی صلاحیت پیدا ہو جائے اور وہ صلاحیت پختہ ہو جائے تو اس کا لازمی نتیجہ استحکام، اخوت، محبت اور یگانگت کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ جناب مجید نظامی کی زندگی کا مقصد بھی انہی عناصر کی آبیاری کرنا تھا اور کامیابی تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ انکے بعد بھی یہ سلسلہ اسی شد و مد کے ساتھ جاری رہے۔ کسی قوم کی زندگی میں یہ عناصر کیوں ضروری گردانے جا سکتے ہیں۔ اس کا جواب کچھ یوں دیا جا سکتا ہے کہ جدید یورپین تہذیب کی زوال پذیری کا سبب انہی نظریاتی، روحانی اور اخلاقی اقدار کی زوال پذیری ہے۔ جس سے نہ صرف تہذیب کا توازن بگڑ گیا ہے بلکہ اسکے اثرات معاشرے پر بھی رونما ہوتے ہیں۔ تب زندگی کا مقصد افادیت اور مادہ پرستی کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ اس موقع پر امام غزالی مرد مومن اور مرد حق کو معاشرے کی راہیں موڑنے میں مددگار قرار دیتے ہیں۔ جناب مجید نظامی نے ان اصولوں اور نظریاتی کیلئے جدوجہد کی جو ہمیشہ سے اکابرین اور حق پرست لوگوں کا وطیرہ رہا۔ ان کے نظریات، مقصد حیات اور اصول پرستی کو چاہنے والا ہر شخص گلوگیر ہے۔ خدائے واحد سے یہی دعا ہے کہ وہ انکے مقصد حیات کو ہمیشگی اور بقا دوام عطا فرمائے۔ جناب مجید نظامی کا سفر درحقیقت اپنے نظریات اور اصولوں کے ذریعے بقا کا سفر تھا اور وہ ان نظریات کے ساتھ ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے اور ہمارے درمیان وہ اپنی تمام تر جدوجہد، عمل پیہم، ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت اور یقین محکم کے ساتھ ایک درخشاں ستارہ بن کر جگمگاتے رہیں گے۔ آمین۔