الطاف مجاہد
باسی عید کو کراچی کی تفریح گاہوں پر رقت آمیز مناظر تھے اس لئے کہ ہاکس بے، سنہرا پوائنٹ اور سی ویو کے مختلف مقامات پر نہاتے ہوئے 3 درجن سے زائد افراد ڈوب چکے تھے جن کی لاشوں کی تلاش جاری تھی۔ حادثاتی اموات نے سوگوار خاندانوں کی عید کی خوشیاں تبدیل کر دی تھیں۔ ساحل سمندر ہی نہیں جناح ہسپتال، بلدیہ ٹاﺅن، لیاقت آباد اور کورنگی سمیت شہر کی مختلف بستیوں میں کہرام بپا تھا۔ ڈوب جانے والوں کے ساتھ نہانے والے مگر حادثات سے بچ جانے والے بتا رہے تھے کہ کس طرح انہوں نے مدد کے لئے پکارا تھا کچھ لوگوں نے اپنی سعی کی لیکن شوریدہ سر لہریں اور گہرائی انہیں ڈوبنے سے نہ بچا سکی۔
عید پر پکنک منانے کے لئے جانے والے منچلے بپھری لہروں کی پروا کئے بغیر سی ویو، کلفٹن، دودریا، ہاکس بے، کیپ ماﺅنٹ، سنہرا پوائنٹ کے گہرے پانیوں میں اتر گئے حالانکہ دفعہ 144 کے تحت یہاں نہانے پر پابندی تھی لیکن کراچی میں جہاں تفریح کے مواقع محدود اور مسرتوں کے لمحے انتہائی کم ہوتے جارہے ہیں ایسے دنوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے جب اجتماعی خوشی منانے کے لمحات میسر آئیں سمندر سے 35 لاشوں کو نکالا جا چکا تھا جب کہ مزید 10 سے 15 کی تلاش جاری تھی کراچی کی ساحلی پٹی پر ماضی میں بھی ایسے سانحات پیش آتے رہے ہیں لیکن کبھی اتنی بڑی تعداد میں اموات نہیں ہوئیں۔ امدادی سرگرمیوں میں تاخیر پر ہلاک شدگان کے ورثا مشتعل تھے اور ان کا موقف تھا کہ تلاش میں تعطل ڈوب جانے والوں کی لاشوں کو مسخ کر دے گا۔
عید کے ایام میں تینوں روز کراچی کی تفریح گاہوں، سینما گھروں اور ہوٹلوں پر لوگوں کا ہجوم رہا۔ افسوس ناک امر یہ تھا کہ کراچی سے ملحقہ ضلع ٹھٹھہ کی کینجھر جھیل اور ضلع جامشورو میں دریائے سندھ کے کنارے المنظر سے ملحقہ علاقے میں بھی نہانے پر پابندی تھی لیکن وہاں بھی 3 ہلاکتیں ہوئیں۔ المنظر جامشورو پر 16 سالہ علی رضا اور 14 سالہ حیدر علی ڈوب گئے جبکہ کینجھر میں ایک نوجوان نعیم گہرے پانی میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا۔ کراچی میں مرنے والوں میں 16 سالہ اسرار، خضر، نقیب اللہ، 13 سالہ ایاز، 14سالہ مظہر، 18 سالہ نظام، 18 سالہ عامر، 14 سالہ اعجاز، 25 سالہ عبدالقدیر، 27 سالہ اختر، 21 سالہ لقمان، 22 سالہ فضل محمد، 21 سالہ عزیز اللہ، 25 سالہ اجمل، 18 سالہ ابراہیم، 20 سالہ عصمت اللہ، 16 سالہ راشد، 17 سالہ عمر زیب ولد نعیم، 20 سالہ خضر، رحیم، نعمان، 18 سالہ فضل اجمل کے نام فوری طور پر معلوم ہو سکے ہیں جبکہ 7 سے زائد لاشیں ناقابل شناخت ہیں جن کے لئے کمشنر کراچی شعیب صدیقی کا کہنا ہے کہ ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے جائیں گے۔ ڈوبنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق کیماڑی، اورنگی ٹاﺅن اور کورنگی سے بتایا جاتا ہے اور آبائی تعلق بیرون کراچی سے تھا ان کی نعشیں بھی آبائی علاقوں کو لے جائی جا رہی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ساحلی پٹی پر 62 ریسکیو ملازمین تعینات ہیں لیکن اخباری رپورٹوں میں دعویٰ ہے کہ ان کی اکثریت ڈیوٹی نہیں دیتی نتیجتاً آئے روز یہاں سانحات جنم لیتے ہیں۔ سی ویو پر نہانے کی پابندی کے باوجود یہاں ڈیزرٹ بائیکس چلاتے نوجوان اور گھڑ سواری کرتے بچے و بڑی بالخصوص لڑکیاں عام دیکھی جاتی ہے یہاں پتھارے بھی سینکڑوں کی تعداد میں گئے تھے جو ظاہر ہے خطرناک موسم میں آنےچ والوں کی دل بستگی کے لئے لگوائے گئے تھے۔ مرنے والوں میں .... پیرآباد کے 3 دوست عمر زیب، نور زیب اور ان کا ایک نامعلوم ساتھی بھی شامل ہے۔ گھر سے نکلتے نکلتے عمر نے اپنی بہنوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ واپس آ کر انہیں عیدی دے گا۔ اس کی بہنیں رو رہی تھیں جو کسی سے دیکھا نہ جاتا تھا اسی طرح اجتماع گاہ روڈ کا لقمان بھی 4 دوستوں کے ساتھ سی ویو گیا تھا ان میں سے دو بچ گئے جبکہ 3 طوفانی لہروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ایک جیپ میں سوار افراد جب لہروں کی زد میں آئے تو جیپ پھنس گئی اسے نکالنے کے لئے کرین منگوائی گئی تو وہ بھی لہروں کا دباﺅ نہ سنبھال سکی اور ڈوب گئی۔ لاشوں کو نکالنے میں ماہر غوطہ خور، مددگار سٹاف اور ریسکیو کا عملہ مصروف تھا۔ پھر پاک بحریہ کے ہیلی کاپٹر کی مدد بھی لی گئی اور گہرے سمندر میں بہتی لاشوں کو رسوں کی مدد سے نکالا گیا۔ اس المناک مرحلے اور جناح ہسپتال کراچی میں تعینات ایک پولیس اہلکار لاشوںکی حوالگی کے وقت علی الاعلان رشوت وصول کر رہا تھا۔ جب خبر ٹی وی چینلز پر چلی تو اس کا اعتراف تھا کہ فوٹو اسٹیٹ کے پیسے لئے تھے۔ ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیپو نے اسے معطل کرنے کے احکامات جاری کئے۔ آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے سانحہ سی ویو کی تحقیقات کے لئے ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیپو کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی ہے جس میں ڈی آئی جی ساﺅتھ، ڈی آئی جی ایسٹ، ایس ایس پی سکیورٹی و دیگر شامل ہوں گے۔ کمیٹی آئندہ 24 گھنٹے میں رپورٹ انہیں پیش کرے گی چیف سیکرٹری سندھ سلیم سجاد ہوتیانہ نے بھی کہا ہے کہ مجرمانہ غفلت برتنے والوں کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے گی۔
سی ویو اور ہاکس بے پر تفریح کے لئے آنے والوں کو خونی لہریں نگلتی رہیں۔ اطلاعات یہ تھیں کہ وہاں پولیس موجود تھی نہ لائف گارڈز۔ اسی لئے بہت سے افراد اپنے پیاروں کو بچاتے ہوئے بے رحم موجوں کی بھینٹ چڑھے۔ ہلاک شدگان میں سے بیشتر کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے ساحل سمندر پر موجود ایک عینی شاہد نے الزام لگایا کہ اس مقام پر پولیس اہلکار موجود تھے لیکن وہ لوگوں کو روکنے کی بجائے گاڑی و موٹر سائیکل مالکان کو روک کر رقم اینٹھنے پر لگے تھے۔
کلفٹن کے ساحل پر اموات کا بڑا سبب ڈیڑھ کلومیٹر کی ساحلی پٹی کو گہرا کرنے کے لئے کھدائی بھی بنی پانی کی تیز لہروں کے ساتھ بہہ کر واپس جانے والے ان گہری کھائیوں میں توازن برقرار نہ رکھ سکے اور ڈوب گئے۔ تین درجن اموات کے بعد اب حکومت سندھ نے ساحل سمندر کو 3دن کے لئے عوام کے لئے بند کر دیا ہے۔ راستے سیل ہیں اور کسی کو سی ویو نہیں جانے دیا جا رہا اگر یہ کارروائی عید والے روز ہوتی تو درجنوں خاندان اپنے پیاروں سے محروم نہ ہوتے۔ اب ادارے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی، کنٹونمنٹ بورڈ، کراچی انتظامیہ، پولیس سب اپنی جان چھڑانے اور دوسرے کی گردن پھنسانے کے چکر میں ہیں۔ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے سانحہ سی ویو کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا ہے اور شہریوں سے اپیل کی کہ وہ طغیانی کے دنوں میں سمندر میں نہانے سے گریز کریں۔
سانحہ سی ویو بہت سے سوالات جنم دے گیا ہے بالخصوص اداروں کی کارکردگی پرلیکن تجربات کو مشعل راہ بنایا جائے تو مستقبل میں حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔