کچھ اور کالم لکھنے کا ارادہ تھا مگر میں پاکستان کے بہت بڑے انسان پاسبان نظریہ پاکستان سب سے بڑے قومی اخبار نوائے وقت کے معماراعظم مجید کے غم سے نکل ہی نہیں پا رہا۔
مجھے غم بھی ان کا عزیز ہے
یہ انہی کی دی ہوئی چیز ہے
غم ایک خوبصورت کیفیت ہے۔ ملال میں جو جمال ہے وہ آخری اور ابدی ہے۔ اداسی ایک تہذیب ہے۔ اداس آدمی ہی مہذب آدمی ہوتا ہے۔ اداسی انسان کو حسن و جمال کی ایسی ادا عطا کرتی ہے جسے ہم ادائے دلبرانہ کہتے ہیں۔ مجھے اداس لوگ اداس عورتیں اداس بچے اچھے لگتے ہیں۔ پرندے اور پھول بھی اداسی کے مظہر ہوتے ہیں۔ مجید نظامی کے لئے آج ایک بہت جامع اور اثرانگیز کالم اثر چوہان کا شائع ہوا ہے۔ ”سارا جہاں اداس ہے۔“ ناصر کاظمی نے کہا تھا:
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
نظریہ پاکستان ٹرسٹ تو ایک ہے۔ وہ لاہور میں ہے۔ برادرم شاہد رشید اس کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ نظامی صاحب کی قیادت صدارت اور سیادت میں فرماں برداری کا حق انہوں نے ادا کر دیا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اتنی تقریبات یہاں ہوئیں کہ کہیں اور نہیں ہوئی ہوں گی۔ دفاتر کے سامنے مادر ملت پارک ہے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ مجید نظامی نے اپنی قبر کے لئے کوئی وصیت کی ہوئی ہے۔ یہ تو جسٹس آفتاب فرح نے بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ ریحانہ مجید نظامی کی قبر کے ساتھ ابدی نیند میں جانا چاہتے تھے۔ میں نے نظریہ پاکستان کی تقریب میں کہہ دیا اور یہ میرے دل کی آواز تھی کہ مجید نظامی کو مادر ملت پارک میں کسی جگہ دفن کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے ہی محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب دیا تھا۔ مادر ملت کے لئے نظامی صاحب صدر جنرل ایوب سے ٹکرا گئے تھے۔ مادر ملت کو ہروایا گیا مگر صدر ایوب پاش پاش ہو گئے۔ کاش وہ مادر ملت کے حق میں دستبردار ہو گئے ہوتے تو نہ سقوط مشرقی پاکستان ہوتا نہ پاکستان کا یہ حال ہوتا۔ مادر ملت بھی مجید نظامی سے بہت محبت رکھتی تھی۔ میں نے عالمی عالم دین لیڈر مولانا مودودی کو مادر ملت کے قدموں میں بیٹھے دیکھا تو اس عظیم خاتون کا مرتبہ میرے دل میں آسمانوں سے بھی بلند ہو گیا۔ سربلند ہو گیا۔ مجید نظامی علامہ اقبال اور قائداعظم کے ساتھ مادر ملت کو بھی اپنے دل و نگاہ میں رکھتے تھے۔ یہ پاکستان اور دنیا بھر کی عورتوں کے لئے ایک زندہ پیغام ہے۔ مجید نظامی اپنی محبوب اہلیہ کی وفات کے دوسرے دن نوائے وقت کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ محبت اور فرض ان کے لئے ایک جیسے تھے۔ محترمہ رمیزہ نظامی بھی مجید نظامی کے قلوں کے اگلے دن 28 جولائی کو نوائے وقت میں موجود تھیں۔ میں اور برادرم شاہد رشید انہیں سوگوار عید ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ آج چھٹی ہے۔ میں کل نوائے وقت جاﺅں گی اور انشااللہ Nawa-i-Waqt will be Nawa-i-Waqt (نوائے وقت انشااللہ نوائے وقت رہے گا) بہت بڑے ایڈیٹر اور بہت بڑے پاکستانی مجید نظامی کی بیٹی کی طرف سے یہ انہیں بہت بڑا خراج تحسین ہے۔ کبھی جانشین اور کبھی وارث مشن کو بہت آگے لے کے چلا جاتا ہے۔ بانی نوائے وقت حمید نظامی نے لیاقت علی خان سے لے کر صدر ایوب تک حکمرانوں کا مقابلہ کیا۔ ان کے دانت کھٹے کر دیے۔ ان کے جانشین بھائی مجید نظامی کو اللہ نے زیادہ موقع دیا۔ انہوں نے اب تک حکمرانوں کو دم بخود کئے رکھا۔ اور جابر سلطان کے منہ پر کلمہ حق کہنے اور لکھنے کی ہدایت کی۔ ایسی شاندار حکایت بنا دیا کہ اردو دنیا والے حیران و پریشان ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے مجید نظامی کا زمانہ دیکھا ہے۔ اس زمانے کو اپنے ساتھ مجید نظامی کی جانشین بیٹی رمیزہ نظامی اپنے ساتھ لے کے چلیں۔ کبھی کبھی جانشین سے فطرت زیادہ کام لے لیتی ہے۔ مجید نظامی کا مشن اور وژن محبت اور جرات کی خوشبو کی طرح پھیلے گا اور پھیلتا چلا جائے گا۔ محبت کے ساتھ جرات اور جرات کے ساتھ محبت بڑی ضروری ہے۔
بلوچستان کے نواب غوث بخش باروزئی نے مجید نظامی کے لئے بات کی تو اشکوں کی زبان میں بات کی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ 2013ءکے انتخابات کے فوراً بعد نظریہ پاکستان لاہور آئے تھے۔ پاکستان کے لئے مجید صاحب کی دردمندی نواب صاحب کی آنکھوں میں جھلک رہی تھی۔ وہ بلوچستان نظریاتی فورم کے صدر فصیح اقبال کے ساتھ تھے۔ اور ہم سب چاہتے تھے کہ وہ بلوچستان کے گورنر بن جائیں۔ نواز شریف مجید نظامی کی اس خواہش تک پہنچ جاتے تو بلوچستان اور پاکستان کے حق میں بہتر ہوتا۔ ایک ملاقات میں نواب صاحب گورنر اچکزئی کی تعریف کر رہے تھے۔ یہ ان کی روائتی درویشی کی مثال ہے۔ محترم اثر چوہان نے دنیا بھر سے نظریاتی فورمز کے دوستوں کے حوالے سے عالمی طور پر تعزیتی تقریبات کا ذکر کیا ہے۔ نوائے وقت گروپ کے انگریزی اخبار دی نیشن کے ایڈیٹر سلیم بخاری اور ان کے بھائیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ انہوں نے انگلستان میں بہت بڑی دعائیہ تقریب منعقد کی ہے۔ ممتاز شاعرہ، ادیبہ، کالم نگار عائشہ مسعود نے اسلام آباد سے فون کیا۔ مجید صاحب کے جنازے میں جاوید صدیق اور عائشہ لاہور آئے تھے۔ کراچی سے برادرم سعید خاور تشریف لائے۔ ان کے ساتھ قلوں کی تقریب میں ملاقات ہوئی تھی۔ عائشہ نے بتایا کہ اسلام آباد سے نظریاتی فورم کے تحت ایک بڑی تعزیتی تقریب نعیم قاسم کے ساتھ مل کر کر رہے ہیں۔ محترمہ رمیزہ نظامی اور آپ کو لاہور سے شرکت کی دعوت دیں گے۔ دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران پنجاب یونیورسٹی میں ایک تعزیتی تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں۔ یہ تقریب اسی ہال میں ہو گی جہاں مجید نظامی کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے کی شاندار تقریب ہوئی تھی۔ یہ پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ تھا۔ یہ معرکہ آرائی پنجاب یونیورسٹی کے لئے ہمیشہ افتخار کا باعث رہے گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر مجاہد کامران نے نظامی صاحب کو زبردست خراج تحسین پیش کیا تھا۔ محترمہ رمیزہ نظامی بھی تقریب میں موجود تھیں۔ علامہ عبدالستار عاصم مجید نظامی کے لئے ایک کتاب فوری طور پر مرتب کر رہے ہیں جسے تخلیقی مزاج کے پبلشر ملک مقبول احمد شائع کریں گے۔ عائشہ مسعود نے مجید نظامی کی زندگی پر ایک خوبصورت کتاب بڑی محنت سے لکھی تھی ”جب تک میں زندہ ہوں“ وہ اپنے مشن کے لئے ثابت قدم رہے۔ یہ مشن ان کے جانے کے بعد بھی قائم رہے گا۔ جسٹس آفتاب فرخ اس کتاب کے لئے عائشہ کے بہت معترف ہیں۔ خادم پنجاب شہباز شریف عید کے دن رمیزہ نظامی کے پاس گھر آئے اور کچھ دیر ان کے ساتھ رہے۔ عالمی فلاحی تنظیم مسلم ہینڈز کے سربراہ جناب لخت حسنین کے لئے قیدی بچوں کی این جی او رہائی کی فرح ہاشمی اور عدیل شیخ نے کھانا کیا۔ وہ سارا وقت مجید نظامی کے لئے باتیں کرتے رہے۔ انگلستان میں بھی پاکستان کے حوالے سے سب سے بڑی قابل ذکر اور ناقابل فراموش شخصیت مجید نظامی تھے۔ منو بھائی وہاں موجود تھے۔ حمیرا محمود نوائے وقت میں لکھنے والے عظیم رومانٹک رائٹر اے حمید کے حوالے سے میرے گھر آئیں اور مجید نظامی کا ذکر کرتی رہیں۔ اس کے خیال میں یہ مجید نظامی کے لئے بڑے دل کی گواہی ہے کہ اے حمید جیسے رومان پرور تحریریں لکھنے والے ادیب نے نوائے وقت کو منتخب کیا۔ اے حمید نے رومانیت اور روحانیت کو ملا دیا تھا۔ یہ گہری تخلیقی کیفیت ہمیں عظیم شاعر منیر نیازی کے ہاں ملتی ہے۔ انہوں نے تحیر اور تفکر کو رلا ملا دیا تھا۔ یہ شعر انہوں نے کس کے لئے لکھا تھا؟ لگتا ہے کہ ان کے دل میں مجید نظامی شخصیت بھی ہو گی۔
کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
ایک خاتون شاعرہ ہیں شمیم کلیم اللہ۔ وہ گھر پر مجید نظامی کے لئے ایک نظم پھینک کے چلی گئیں۔ مجھے اس نظم میں جذبات کا گداز تو ملا مگر وزن اور بحر کے لئے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بے شمار شاعر اختر شمار اور سعداللہ شاہ کا خیال ہے کہ آپ نے ایسی شاعری کے لئے کہا تھا کہ یہ شاعری بحر بے کراں میں کی گئی ہے۔
ملک و ملت کا عظیم اثاثہ
لرزتا تھا جس سے اتحاد ثلاثہ
کلمہ حق روبرو سلطان جابر
جراتوں کا ایسا باب الحماسہ