کیا مودی بھارت کو تباہی کے راستے پر ڈال رہے ہیں…؟؟

پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک بھارت سے باہمی تعلقات کبھی بھی پرامن اور نارمل نہیں رہے حالانکہ دونوں ممالک کے بیچ کور مسئلہ کشمیر پر 3جنگیں ہو چکی ہیں مگر بنیادی مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے، بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ ہندوستان کی قیادت کبھی بھی کشمیر سرینڈر کرنے پر آمادہ ہوگی اور خاص طور پر ایسے حالات میں کہ وہاں پر بی جے پی کی حکومت ہو اور نریندر مودی جیسا انتہا پسند ہندو اس کا وزیراعظم ہو، مودی کے مسلمان دشمن ہونے پر کوئی دو آراء نہیں ہو سکتی اور جس کا ماضی مسلم کش سانحات سے معمور ہو اس کے ہوتے خیر کی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، بابری مسجد کا مسمار کیا جانا ہو، سمجھوتا ایکسپریس پر قتل عام ہو یا گجرات شہر کی سڑکوں پر مسلمانوں کی خون ریزی مودی کا مکروہ کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ کس بے حیائی سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے کو اپنی کار کے نیچے کتا آجانے سے تشبیہ دیتے اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس میں ان کیا قصور ہے جو پوری دنیا کی سیاسی قیادت اور عالمی امن کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ مارنے کے برابر ہے، جب سے انہوں نے عنان حکومت سنبھالا ہے پاک وہند بارڈر کے اس پار سے کبھی کوئی اچھی خبر نہیں آئی مگر اس سے پہلے کہ مودی کے حوالے سے آئندہ کیا ہوگا کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے پاک بھارت تعلقات تاریخی اعتبار سے کن مراحل سے گزرے ہیں اس کا جائزہ لینا ضروری ہے، 14اگست 1947ء کو برطانوی حکومت نے برصغیر ہند کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور یوں اس خطے میں پہلی آزاد مسلمان ریاست کی بنیاد پڑی، ابھی آزادی کو ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت نے جنگ مسلط کردی جو اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی قرارداد پر ختم ہوئی یہ اس وقت ہوا جب اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہر نے عالمی ادارے میں دو قراردادیں پیش کیں، ایک جنگ بندی سے متعلق تھی جبکہ دوسری قرارداد میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ جلد جموں اور کشمیر کے عوام کو یہ موقع فراہم کیا جائیگا کہ وہ حق خود ارادیت کے تحت یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان سے الحاق کے خواہش مند ہیں، یہ قرار داد جس کا تعلق خود ارادیت سے ہے گزشتہ 67 برس سے پوری عالمی برادری کا منہ چڑا رہی ہے، بھارت پہلے تو ٹال مٹول سے کام لیتارہا اور اب اس پر بات کرنے پر بھی آمادہ نہیں، اسی طرح 6ستمبر 1965ء کو کشمیر کے مسئلہ پر ہی بھارت نے پاکستان پر دوسری جنگ مسلط کردی اور اسے شکست کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، یہ جنگ بھی اقوام متحدہ کی مداخلت پر ختم ہوئی، تیسری جنگ بھی بھارت نے 1971ء میں مسلط کی جس کا مقصد پاکستان کو دو لخت کرنا تھا، مودی کو شرم آنی چاہیے کہ اس نے اپنے حالیہ دورہ بنگلہ دیش کے دوران یہ تسلیم کیا کہ انہوں نے خودنفس نفیس اس جنگ میں حصہ لیا، ساتھ ہی ساتھ ان کی اس تقریر نے یہ بھی ثابت کردیا کہ بنگلہ دیش کا وجود کسی نظریاتی بنیاد پر قائم نہیں ہوا بلکہ یہ ایک بھارتی سازش تھی جس کا مقصد پاکستان کے مشرقی حصے کو علیحدہ کر کے اسے کمزور کرنا تھا 1972ء میں مرحوم بھٹو اور اندرا گاندھی کے مابین ہونیوالا شملہ سمجھوتا کا مقصد بھی باہمی تعلقات کو ایک سمت دینا تھا۔ مگر 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کر کے بھارت نے طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ان تعلقات میں ایک اور تکلیف دہ موڑ اس وقت آیا جبمقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند نوجوانوں نے بھارتی قابض فوج کیخلاف انتفارہ شروع کیا، اس کا سارا الزام بھارت نے یہ کہہ کر پاکستان پر ڈال دیا کہ باغیوں اور علیحدگی پسند کو اسلحہ اور سرمایہ پاکستان کی جانب سے فراہم کیا جا رہا ہے، اس کے 9سال بعد مئی 1990ء میں بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پھر صورتحال کو گرما دیا اور مجبوراً پاکستان کو بھی جواب آں غزل کے طور پر 6دھماکے کرنے پڑے اور یوں ہندو انتہا پسند رہنمائوں کو یہ احساس ہو گیا کہ پاکستان ترنوالہ نہیں، اس کے ایک سال بعد 1999ء میں نواز شریف کی دعوت پر اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے اور یہ سفر انہوں نے دوستی بس پر کیا، مگر اسی سال کارگل میں ایک مختصر جنگ لڑی گئی جس نے صورتحال کو ایک بار پھر ابتر کردیا اور یوں 2001 میں واجپائی اور جنرل مشرف کی آگرہ میں سربراہی ملاقات بھی ناکام ہوگئی، پھر اسی سال دسمبر میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوگیا جس کا الزام بھارت نے لشکر طیبہ اور جیش محمد پر عائد کردیا اور پاک بھارت بارڈر پر 10لاکھ فوجی تعینات کردیئے گئے گئے یہی فوجی 2002ء جون میں اپنی اپنی بیرکوں میں واپس گئے، پھر 2004ء میں امن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا، پھر 2008ء میں تین روزتک ممبئی حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں 166افراد جاں بحق ہوئے اور بھارت نے امن مذاکرات کا عمل ترک کردیا، بعد ازاں 2009ء میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور صدر آصف زرداری کے درمیان روس میں منعقد ایک عالمی کانفرنس کے دوران ملاقات ہوئی اور یہ مطالبہ سامنے آیا کہ پاکستان سے بھارت کیخلاف ہونیوالی مسلح کارروائیوں کو روکا جائے یہ مطالبہ اس وقت کیا گیا جب کشمیری جنگجوئوں نے بھارتی فوج کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ 2011ء میں پاکستان اور بھارتی وزرا خارجہ کے درمیان نیو دہلی میں ایک ملاقات ہوئی جس سے لگا کہ شاید ایک نئے عہد کا آغاز ہونے والا ہے اور یوں صدر آصف زرداری اور من موہن سنگھ کے درمیان 7سال بعد 2012ء میں دہلی میں ملاقات ہوئی۔ اسی سال بھارت نے ممبئی حملوں کے واحد زندہ بچ جانے والے اجمل قصاب کو پھانسی دے دی۔ 2013ء میں بھارت نے الزام لگایا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوجیوں نے دو بھارتی فوجیوں کو ہلاک کردیا اور ایک لاش کی بے حرمتی کی اور من موہن سنگھ نے اعلان کیا کہ پاکستان کے ساتھ معمول کے مطابق کام نہیں ہوسکتا اور اسے جواز بنا کر مذاکرات یکطرفہ طور پر منسوخ کردئیے۔ اب ذرا غور کریں ایسے حالات سے گزرنے والے تعلقات کو معمول کا بزنس کیسے تصور کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں بھی تعلقات میں کئی ایسے موڑ آئے کہ یوں لگا کہ ایک اور تصادم کی فضا ہموار ہو رہی ہے مگر بھارتی عسکری قیادت اور دفاعی تجزیہ کاروں کا یہ اظہار کہ بھارت پاکستان کیخلاف جنگ جیت نہیں سکتا نے مودی جیسی اندھی اور انتہا پسند قیادت کو کسی ایسی کارروائی سے باز رکھا جس سے جنوبی ایشیاء کا امن خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ پاک بھارت تعلقات آج بھی نارمل نہیں۔ مودی سرکار ہم سے مولانا لکھوی کی حوالگی کا مطالبہ کرتی ہے مگر کرنل پروہت اور آسانند سوامی کے معاملے پر اسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہ دونوں موصوف بھارتی عدالتوں میں سمجھوتہ ایکسپریس اور پارلیمنٹ حملوں میں اپنے ملوث ہونے کا اقرار کرچکے ہیں۔ پاکستان کے صوبے بلوچستان اور سندھ کے شہر کراچی میں بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی را کا ملوث ہونا اور دہشت گردوں کو سرمایہ اور اسلحہ فراہم کرنا اب کوئی راز کی بات نہیں مگر کیا مجال کہ ہمارے وزیراعظم نیپال میں ہونیوالی سارک سربراہی کانفرنس اور روس کے شہر اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران مودی سے ہونیوالی ملاقاتوں میں ایک لفظ را اور کشمیر کے بارے میں ادا کرنے کی جرأت کرسکے ہوں جبکہ مودی نے مولانا لکھوی کی حوالگی پر اصرار کیا۔ ہمارے سیکرٹری خارجہ امریکہ کے دورے پر جاتے ہیں تو امریکی اہلکاروں کے سامنے بھارت سے متعلق ایک لفظ نہیں بولتے۔ اب ہمارے جزوقتی وزیر خارجہ سرتاج عزیز فرماتے ہیں کہ ستمبر میں ہونیوالے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم بھارتی مداخلت کے حوالے سے معاملہ اٹھائیں گے۔ مجھے بالکل ایسا نہیں لگتا کیونکہ نواز شریف کو بھارت سے ہر حال میں دوستی کرنی ہے۔ ہاں اگر آرمی چیف جنرل راحیل کو اس حوالے سے ایک اور سخت بیان جاری کرنا ہے تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، یہ ہے وہ سیاسی بے عملی جس کا فائدہ اٹھا کر عسکری قیادت عوام کی نظروں میں زیادہ محب وطن بنتی جا رہی ہے، ویسے بھی قومی مفاد اپنی جگہ تجارتی مفاد بھی تو ایک حقیقت ہے ہماری مراد شریف برادران کے ذاتی کاروبار سے نہیں بظاہر دو طرفہ پاک، بھارت تجارت سے ہے۔ ہم ہمہ وقت واہگہ بارڈر کھولنے سے لے کر موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے پر تیار رہے ہیں اور آج بھی تیار ہیں۔ چلاتا رہے بھارت کنٹرول لائن پر گولے اور کرتا رہے معصوم کشمیریوں کا قتل عام ہمیں بزنس مین وزیراعظم سے یہی توقع رکھنی چاہیے کہ وہ تو بس باہمی تجارت کا راگ الاپتے رہیں گے، اب وقت آ گیا ہے کہ قومی حمیت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بھارت سے برابری کی بنیادی پر امن مذاکرات کئے جائیں لیکن ہندوتا کے پجاریوں کی مذموم سازشوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کوئی خرابی نہیں، بزنس کرنے کیلئے بڑا وقت پڑا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...