راج ناتھ سنگھ کی آمد اور ہماری قیادتیں

بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ سارک کانفرنس اسلام آباد میں شریک ہونگے جہاں سارک کے طے شدہ ایجنڈا کے مطابق اجلاس کی کارروائی اور اعلامیہ ہوگا لیکن راج سنگھ کی اسلام آباد آمد ہمارے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کیلئے ایک امتحان بھی ہے کہ وہ پروٹوکول کے نام پر ’’دوستی بحالی تعلقات‘‘ کیلئے ’’وارے جاتے‘‘ ہیں یا غیرمعمولی عزت افزائی کرتے ہیں یا قومی وملی غیرت کے مطابق جسمانی بولی "Body Language" کا استعمال کرتے ہوئے ’’سردمہری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ امریکہ اور مغربی ممالک کا پاک بھارت تعلقات کی بحالی کیلئے تازہ دباؤ موجود ہے اور امکان ہے کہ پاکستانی حکمران ’’برف پگھلانے ‘‘ کے موقع کو استعمال کریں، ماضی کے دوسال کا عرصہ اب اس بات کا گواہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے موذی مودی سے ’’دوستی تجارت‘‘ کے ’’بخار‘‘ میں عموماً نرم رویہ اپنایا حتیٰ کہ بھارتی ’’را‘‘ آفیسرکل بھوشن یادیو اور دیگرساتھیوں کی گرفتاری پر بھی اپنے دوست مودی کو سخت پیغام نہیں دیا۔ جاتی امراء میں افغانستان سے نواسی کی شادی کی تقریب اور سالگرہ میں شرکت ابھی قوم کو یاد ہے اس لئے قوم کی اکثریت وزیراعظم پاکستان کی طرف سے خود سخت مؤقف یا احتجاج نہ ہونے پر شاکی ہے۔ اگروزیراعظم یا وزارت خارجہ سرتاج عزیز یا چودھری نثارعلی خان راج ناتھ سنگھ کو گرم جوشی سے خوش آمدید، سر(Sir) آمد کا شکریہ، آداب، گرم جوش مصافحہ یا معانقہ کرتے دکھائی دئیے تویہ ’’منافقانہ ڈپلومیسی‘‘ ہوگی۔ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ پاکستانی بارڈر اور لائن آف کنٹرول پر تعینات بھارتی سکیورٹی فورس کے انچارج وزیرہیں جنہوں نے سیالکوٹ، کندن پور، شکرگڑھ اور جموں کے علاقوں میں اپنے رینجرز سے براہ راست کئی سیکٹروں میں بے پناہ مارٹرراکٹ بازی کرائی جس سے ہمارے رینجرز افسر، جوان، شہری، املاک شہید اور تباہ ہوگئیں۔ یہ ’’خون خرابہ چمپئن‘‘ راج ناتھ سنگھ چارماہ سے بے گناہ مقبوضہ کشمیری نوجوانوں، بوڑھوں، لڑکیوں کے خون اور عصمتوں سے ظلم کے پہاڑ توڑنے کے براہ راست احکامات دے رہا ہے۔ ’’ڈریکولین راج ناتھ سنگھ‘‘ نے بھارت کے متعدد صوبوں میں کشمیری طلباء وطالبات اور مسلمانوں پر انتہاپسند ہندوؤں کے حملوں میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ وہ درپردہ ’’را‘‘ سربراہان سے پاکستان میں تخریب کاری کا نیٹ ورک بنوانے، بھجوانے کا بھی مرکزی کردار ہے۔ پٹھان کوٹ واقعہ ہو یا سرحدی جھڑپیں یا مقبوضہ کشمیرکی تحریک آزادی، وہ ہمیشہ اپنی زہریلی اور جھوٹی زبان سے پاکستان پر بلاثبوت الزامات اور دھمکیوں کی زبان استعمال کرتا آرہا ہے۔
راج ناتھ سنگھ پاکستان کی جڑیں کاٹنے کا پانچ کے مرکزی ٹولے کا ایک کردار ہے جنرل مشرف سے کے بھارت سے مذاکرات کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ کم ازکم 2001سے 2016تک بھارت نے سارے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشتگردی کرائی اور یہ سلسلہ مودی دور میں بھی جاری ہے۔ ثبوت بلوچستان میں وسیع تخریب کاری اور کراچی کے سینکڑوں ٹارگٹ کلرز ہیں اور بھی متعدد دہشتگردی کے واقعات مودی سرکار نے بذریعہ افغانستان کرائے ہیں۔
راج ناتھ سنگھ کیخلاف سول سوسائٹی، مذہبی تنظیموں، سیاسی جماعتوں، کشمیریوں کی آزادی کی تنظیموں، دفاع پاکستان کونسل وغیرہ کو کم ازکم گلگت سے اسلام آباد اور لاہور، کراچی ، کوئٹہ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور بی ایس ایف (B.S.F) سی آرپی سی (C.R.P.C) سینٹرل ریزروپولیس وغیرہ کے خلاف پرامن احتجاج کرنا چاہیے۔ حکمرانوں کو بھی ملی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’سلوک‘‘ کرنا چاہیے۔ بھارتی وزارت خارجہ اور ترجمان نے راج ناتھ سنگھ اور سشما سوراج کے امکانات پر بیان جاری کردیا ہے کہ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں یا کسی اور سے ’’الگ میٹنگ‘‘ شیڈول میں نہیں۔ اگر ایسا ہے توپھر’’ایسے کو تیسا‘‘ کی پالیسی اپنا کر بھارت کو کورا جواب دیا جائے اور تجارتی تعلقات پر بھی نظرثانی کی جائے۔ ہمیں بھارتی کیلے، آلو، ٹماٹر، پیاز یا دالوں کی کوئی ضرورت نہیں یہ بے غیرتی ہے۔ اگرممکن ہو توراج ناتھ سنگھ کو ’’ولایتی جام‘‘ میں پاکستانی ’’گاؤ ماتا‘‘ کا پیشاب بھی اسی رنگ کے جام میں ملا دیا جائے کہ یہ ہندوؤں کا ’’پوترمشروب‘‘ ہے۔ انکے سابق وزیراعظم مرارجی ڈیسائی گائے کا پیشاب پی کر بڑے فخر سے اعلان کرتے تھے کہ جام صحت اور پاک ہونے کیلئے ہے!! مودی کیلئے بھی دو بڑی 20لیٹرکی بوتلیں پاکستان سے بھیج دی جائیں۔ آموں کی پیٹیاں، ساڑھیاں، تحائف کا توکوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ای پیپر دی نیشن