مَیں نے دیکھا کہ علاّمہ طاہر اُلقادری کے لڑکپن کے جھنگوی دوست بابا ٹلّ اپنے گلے میں لٹکا ٹل بجائے بغیر میرے ڈرائنگ روم میں اپنے مخصوص سِنگل صوبے پر آ کربیٹھ گئے۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ بابا ٹلّ جی ! مبارک ہو آپ کو!۔ آصف زرداری صاحب نے سندھ کے نئے وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ کو سندھ میں رینجرز کو فوری طور پر اختیارات دینے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔
بابا ٹلّ ۔ ’’اثر چوہان صاحب! مبارکباد کے اصل مستحق تو مُراد علی شاہ ہیں ۔ البتہ ، زرداری صاحب نے یہ ثابت کردِیا ہے کہ مُراد علی شاہ ہی اُن کے "Blue Eyed Boy" ہیں ۔ وگرنہ اِس طرح کی ہدایات تو وہ سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کو بھی دے سکتے تھے ، جو اُنہوں نے نہیں دیں۔ آپ نے وہ ضرب اُلمِثل تو سُنی ہوگی کہ ’’ جِسے پِیا چاہے ، وہی سُہاگن‘‘ ۔ مجھے تو پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ زرداری صاحب اب ’’ زرداری اِزم‘‘ کو فروغ دینے والے ہیں !‘‘۔
مَیں ۔ زرداری اِزم؟ مَیں سمجھا نہیں بابا ٹلّ جی۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ آپ کو یاد ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سوشلزمؔ کے علمبردار تھے لیکن اقتدار میں آ کر اُنہوں نے سوشلزم نافذ کرنا ضروری نہیں سمجھا!‘‘
مَیں ۔ جی ہاں! اقتدار میں آکر بھٹو صاحب نے سوشلزم کا نعرہ ترک کردِیا تھا اور "Mixed Economy" (مخلوط معیشت) رائج کردی تھی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی اور جنرل ضیاء اُلحق کے جاں بحق ہونے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو دوبار وزیراعظم منتخب ہُوئیں تو اُنہوں نے غریب غُرباء کو بتایا کہ ’’سوشلزم ، مارکس اِزم، لینن اِزم، اور مائو اِزم کے بجائے ’’ بھٹو اِزم‘‘ ہی اُنہیں روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرسکتا ہے‘‘۔ مجھے یاد ہے بابا ٹلّ جی۔
بابا ٹلّ ۔ ’’تو آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ’’ بھٹو اِزم‘‘ کے تحت بھی عوام کے روٹی، کپڑا اور عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکے تھے!۔ اب آپ مجھ سے یہ بھی پوچھیں گے کہ یہ مسائل کیوں نہیں حل ہُوئے ؟ تو مَیں کہوں گا کہ عوام کی اپنی قِسمت!‘‘۔
مَیں ۔ تو کیا ہم بھٹو صاحب کی پھانسی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کو بھی قِسمت کا فیصلہ سمجھا جائے گا؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ جی ہاں! کیوں نہیں؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کی آصف زرداری کی شادی بھی قِسمت کا فیصلہ تھا‘‘۔
مَیں ۔ بابا ٹل جی! محترمہ بے نظیر بھٹو نے شادی کے بعد آصف زرداری صاحب کو پیپلز پارٹی میں کوئی عُہدہ نہیں دِیا تھا ، کیا اُسے بھی قِسمت کا فیصلہ کہا جائے گا؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ جی نہیں! یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا اپنا ذاتی فیصلہ تھا!‘‘۔
مَیں ۔ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اُن کی مبیّنہ، برآمدہ وصیت کے مطابق آصف زرداری صاحب کا اپنے بیٹے بلاول زرداری کو ’’ بھٹو‘‘ کا خطاب دے کر اُسے پیپلز پارٹی کا چیئرمین نامزد کر کے خود شریک چیئرمین کا عہدہ سنبھالنا ۔ کیا اُسے بھی قِسمت کا فیصلہ کہا جائے گا؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ جی نہیں ! یہ دونوں فیصلے جنابِ آصف زرداری نے کئے تھے البتہ اُن فیصلوں میں محترمہ شیری رحمن کی مشاورت شامل تھی!‘‘۔
مَیں ۔ اور رحمن ملک صاحب ؟وہ بھی تو جنابِ زرداری کے مشیرِ خاص تھے ؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ رحمن ملک صاحب اُس مشاورت میں بعد میں شامل ہُوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شیری رحمن صاحبہ سے آگے نکل گئے!‘‘۔
مَیں۔ صدرِ پاکستان منتخب ہو کر آصف زرداری صاحب بھی تو ’’ بھٹو اِزم‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ یہ صدر زرداری کی سیاسی ضرورت تھی۔ بھلا موصوف اپنے والدِ محترم کے نام پر ’’ حاکم زرداری اِزم‘‘ کا نعرہ تو نہیں لگا سکتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ چیئرمین بلاول بھی اپنے نانا اور والدہ کے حوالے سے اور اپنے نام کی نسبت سے ’’ بھٹو اِزم‘‘ کی ہی بات کرتے ہیں !‘‘۔
مَیں ۔ ’’ بھٹو اِزم‘‘ کا نعرہ لگانے کے باوجود 2013ء کے عام انتخابات میں جنابِ زرداری اور بلاول بھٹو کی پارٹی صوبہ سندھ تک کیوں سُکڑ گئی تھی؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ اُس کی دو وجوہات تھیں ۔ پہلی تو یہ کہ لاہور ہائی کورٹ کے حُکم کے مطابق جناب آصف زرداری نے صدر مملکت کا عہدہ سنبھالے رکھا اور شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دِیا۔ وہ پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت نہیں کرسکتے تھے اور دوسری یہ کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری دہشت گردوں کے خوف سے عام جلسوں کے بجائے ویڈیو لنکس پر خطاب کِیا کرتے تھے!‘‘۔
مَیں کیا صدر زرداری کا پیپلز پارٹی کا شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑنا ’’ زرداری اِزم‘‘ کا آغاز تھا بابا ٹلّ جی؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ مَیں کیا کہہ سکتا ہُوں۔ دِلوں کے بھید تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں ! ‘‘
مَیں۔ جناب آصف زرداری نے جون 2015ء میں اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’مَیں جرنیلوں کی اِینٹ سے اِینٹ بجا دوں گا‘‘۔ پھر وہ ملک سے باہر چلے گئے کیا وہ دُبئی ، برطانیہ اور امریکہ میں رہ کر اِینٹ سے اِینٹ بجانے کا فن سیکھتے رہے؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ مَیں تو اُسے بھی قِسمت کا فیصلہ ہی کہوں گا۔ نہ جانے کِس شاعر نے کہا تھا کہ ؎
’’ عِزّت اُسے مِلی ، جو وطن سے نِکل گیا‘‘
مَیں ۔ فرض کِیا کہ جنابِ زرداری کی ہدایات کے مطابق سندھ میں رینجرز کو فوری طور پر اختیارات دینے کا اعلان کردیں تو کیا زرداری صاحب کی وطن میں عزت قائم ہو جائے گی؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ فی الحال مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ شاید سندھ کے لوگ سیّد مُراد علی شاہ کی سیّد قائم علی شاہ سے زیادہ عزت کرنے لگیں!‘‘۔
مَیں ۔ بابا ٹلّ جی ! وزیر اعلیٰ مُراد علی شاہ نے کراچی میں مزارِ قائداعظمؒ پر حاضری دی ۔ وہاں فاتحہ خوانی نہیں کی لیکن گڑھی خُدا بخش میں جنابِ بھٹو اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی۔ کیا یہ بھی ’’ زرداری اِزم‘‘ کا کوئی ٹوٹکا ہے؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ جی نہیں! دراصل قائدِاعظمؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کرنا سیّد مُراد علی شاہ کی قِسمت میں نہیں تھا۔ اُستاد جلیلؔ نے کہا تھا کہ ؎
’’ کِس قدر مجبور کرکے ، اُس نے رکھا ہے ہمیں
سو رہی ہے اپنی قِسمت ہم جگا سکتے نہیں‘‘
مَیں ۔ بابا ٹلّ جی! وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ’’ہم سندھ میں کرپشن کے گڑے مُردے نہیں اُکھاڑیں گے‘‘۔ اِس بیان کا کیا مطلب ہے؟۔ کیا رینجرز کی طرف سے شاہ صاحب کرپشن کے گڑے مُردے اکھاڑنے کا کوئی پیغام بھجوایا گیا تھا؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’اِس سلسلے میں مجھے سندھ کے مشیرِ اطلاعات جناب مولا بخش چانڈیو سے پوچھنا ہوگا۔ فی الحال آپ حضرت امیر مینائی کا یہ شعر سنئیے ؎
’’ آگے اُس کے کیا ذکرچھیڑوں مَیں
گڑے مُردے عبث اکھیڑوں مَیں ‘‘
مَیں ۔ بابا ٹلّ جی ! آپ اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو چکے ہیں ۔ اگر آپ بُرا نہ منائیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ بھی اپنی سیاسی پارٹی بنا کر عوام کی بھلائی کے لئے ’’بھٹو اِزم‘‘ اور ’’زرداری اِزم‘‘ کے مقابلے میں ’’ بابا ٹلّ اِزم‘‘ کا نعرہ بلند کر کے میدان میں اُتریں ؟ ۔ مَیں آپ کو یقین دلاتا ہُوں کہ مَیں اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت آپ کی پارٹی میں شامل ہو جائوں گا ؟۔
بابا ٹلّ نے ناراضی سے میری طرف دیکھا اور کئی بار ٹلّ بجایا ۔ پھر میری آنکھ کُھل گئی۔