ہر کمالے را زوالے قانون قدرت ہے۔ انسان، خاندان یا سلطنتیں اگر سدرة المنتہا تک بھی پہنچ جائیں تو انہیں بالآخر نیچے آنا ہوتا ہے واپسی کا سفر بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ عظمت کے چھن جانے کا خیال ہی روح کو کچوکے دیتا ہے۔ غالباً اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے منیر نیازی نے کہا تھا:
ہے جس کے بعد عید زوال آشنا منیر
اتنا کمال ہم کو خدا نے نہیں دیا
آجکل برطانیہ کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ تاریخ عبرت کا ایک افسوسناک باب ہے۔ یہ وہی ایمپائر ہے جس پر سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا۔ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ، سنگا پور، برما سب سے بڑھ کر ہندوستان اس کی کالونیاں تھیں۔ عقل حیران ہوتی ہے کہ ایک چھوٹے سے مچھیروں کے ملک نے کیوں اور کس طرح آدھی دنیا پر قبضہ کر لیا۔ سکندر اعظم، جولئیس سیزر، چنگیز خان کی طرح انہوں نے بزور شمشیر دنیا کو فتح نہ کیا۔ یہ ان کی عقل، فہم و ادراک، چالاکی، مکاری اور عیاری تھی جس نے ہر در کے قفل کھول دیئے۔ گو اس ”کار خیر“ میں یہ اکیلے نہ تھے دیگر مغربی ممالک نے بھی حسب توفیق کالونیاں بنائیں۔ فرانس نے الجیریا، ویت نام وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔ ولندیزی انڈونیشیا پر مرمٹے، اسپین نے لاطینی امریکہ میں قدم جما لیے۔ پرتگیزیوں نے گوا، میکاﺅ کو بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی، سمجھ کر تسلط جما لیا۔ ایک خود ساختہ فلسفہ White Man's Burden مغرب کے علاوہ دیگر قومیں اور ممالک غیر مہذب ہیں۔ یہ اپنے امور سلطنت بطریق احسن نہیں چلا سکتیں۔ لہٰذا مہذب ملکوں کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ان پر قبضہ کرکے لوگوں کو مہذب بنایا جائے۔ اٹلی ایتھوپیا پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ برطانیہ نے کوشش کی، قتل و غارت کے بغیر ہی کام بن جائے۔ اس پر مسولینی نے برطانوی وزیر اعظم چیمبر لین کو کہا:
If you offer me the whole of Ethopia on a silver platter, I will not accept it, because I have resolved to take it by force!
فاشٹ فلاسفی کا بنیادی اصول بھی یہی تھا۔
War is to men what maternity is to mother.
ہندوستان پر برطانوی تسلط تاریخ عبرت کا ایک المناک باب ہے۔ یہ اتنا بڑا ملک تھا کہ سب لوگ مل کر اگر پھونک ہی مار دیتے تو مچھیرے بحیرہ¿ ہند میں جا گرتے۔ ایسا ممکن نہ تھا بڑا ملک ایک چھوٹا ذہن رکھتا تھا۔ انکی آپس کی کدورتوں، مناقشتوں، نفرتوں اور تعصب نے ہر حملہ آور کو ہمت اور حوصلہ دیا۔ سنٹرل ایشیا کے مہم جووﺅں نے تو اسے شکار گاہ سمجھ رکھا تھا۔ آئے، مار دھاڑ کی، جس قدر لوٹ سکتے تھے، لوٹا اور اگلے سال پھر آنے کا عندیہ دے کر چلے گئے۔ گویا ہر چہ بادا بادتھا۔ پتہ نہیں اس صورت حال کی خبر انگلستان تک کیسے پہنچی۔ ایک انگریز جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا۔ گو کمپنی کا ملازم تھا لیکن پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھا۔ اتفاق سے جہانگیر کا چہیتا بیٹا شاہجہان بیمار پڑ گیا۔ مقامی اطبا نے جب معذوری ظاہر کی تو ٹامسمور نے علاج کرنے کی حامی بھر لی۔ شاہجہاں صحت یاب ہوا تو جہانگیر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اس نے ڈاکٹر کو سونے میں تولنے کا حکم دیا۔ چالاک ڈاکٹر نے دست بستہ عرض کی عالم پناہ! مجھے مال و زر نہیں چاہیے۔ میری کمپنی کو تجارت کی اجازت دی جائے۔ مینا بازار کی قمریوں، عندلیبوں اور فاختاﺅں میں پروان چڑھنے والا بادشاہ مستقبل کا ادراک کیسے رکھ سکتا تھا۔ بلاسوچے سمجھے اجازت دے دی۔ ویسے بھی یہ وہ لوگ تھے جو لمحہ موجود پر یقین رکھتے تھے۔ بابر با عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ مکار ڈاکٹر عیش کے اسباب بھی ساتھ لایا تھا۔ اس نے عالم پناہ کے حضور وسکی اور تمباکو پیش کیا۔ افشردہ انگور پینے والے نے جب وسکی کا جام منہ سے لگایا تو وہ ایک نئے ذائقے اور لذت سے آشنا ہوا۔ ہشیار ملکہ عالیہ اس میں تھوڑی سی افیون بھی ملا دیتی۔ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔ تمباکو کا اپنا ”اروما“ تھا۔ بادشاہ سلامت پر روز حقے کے لمبے کش لیتے! درباری شاعر کچھ یوں نغمہ سنتے ہوتے۔
حقہ جو ہے حضور معلیٰ کے ہاتھ میں
گویا کہ کہکشاں ہے ثریا کے ہاتھ میں
الغرض دیکھتے ہی دیکھتے ایسٹ انڈیا کمپنی نے پر پُرزے نکالنے شروع کر دیئے۔ میر جعفر اور میر صادق ٹائپ لوگ ممد اور معاون ثابت ہوئے۔ اس قسم کے لوگوں کی ہندوستان میں کمی نہ تھی۔ ہندوﺅں کو بھی ہزار سال کی غلامی کا طوق اتارنے کا نادر موقع مل گیا جب مسلمانوں کو ہوش آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ 1857ءکی جنگ نہ تو ٹھیک طرح سے جنگ آزادی تھی اور نہ ”غدر“ تھا۔ It was an upheavel، مشت غبار (بہادر شاہ) نے کیا کمان سنتھالنی تھی، شکست کے بعد جلاوطن کر دیا گیا۔ اس طرح برطانیہ کا ہندوستان پر مکمل قبضہ ہو گیا اور سورج نہ ڈوبنے والا محاورہ ایک تاریخی حقیقت بن گیا۔
ایک طویل عرصہ تک دنیا پر حکمرانی کرنے والا ملک بالآخر زوال پذیر ہو گیا۔ دو عالمی جنگوں نے اس کی عسکری قوت کو بری طرح متاثر کیا اور محکوم قوموں میں سیاسی شعور پیدا کیا۔ ایک ایک کرکے ملک اس کے تسلط سے آزاد ہوتے گئے۔
امریکہ نے پہلے ہی Boston tea party منائی تھی۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے درمیانی راہ نکالی۔ سنگاپور میں جاپانی جرنیل یاماشیٹا نے اس کی عسکری قوت کا بھرم کھول دیا۔ اس نے شکست کی دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے برطانوی کمانڈر جنرل پر سی وال کو چانس لینے کی بھی مہلت نہ دی۔ فخر برطانیہ ”پرنس آف ویلز“ کو جاپانیوں نے غرق آب کر دیا نتیجتاً ہندوستان پر قبضہ قائم رکھنا محال ہو گیا۔
آخر کار ایک ایمپائر سکٹراور سمٹ کر اپنی سرحدوں تک محدود ہو گئی۔ اب اس میں بھی دراڑیں پڑنی شروع ہو گئی ہیں۔ بریگزٹ میں سکاٹ لینڈ اور نادرن آئرلینڈ نے "IN" ووٹ دیا ہے جبکہ 52 فیصد لوگ باہر نکلنے کے حامی ہیں۔ اس ریفرنڈم کے دورس اثرات مرتب ہوں گے۔ سکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ کا الگ ہونا اب یقینی امر ہے۔ سکاٹ لینڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ یورپ کا حصہ ہے اور کسی صورت الگ نہیں ہو گا اس سے ایک آئینی بحران پیدا ہو گا۔ ویسے بھی برطانیہ میں آئین نہیں ہے۔ کاروبار حکومت روایات پر چل رہا ہے۔ پایان کار اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں بھی ریفرنڈم کروانا پڑے گا۔ ان کے الگ ہونے کی صورت میں برطانیہ کا سائینر اور طاقت کس قدر کم ہو جائے گی؟ انگریز شاعر کامرج کی زبان میں A thing to dream and not to tell پونڈ جس بری طرح گرا ہے اس سے طفیل ہوشیارپوری کا وہ شعر یاد آتا ہے:
ایسے گرے کہ گر گئے دونوں جہاں سے ہم
برطانیہ کی 601 برآمدات یورپ میں ہوتی ہیں۔ تجارتی مال پر پابندیاں اور ٹیکس لگنے کی صورت میں اشیاءکا بکنا محال ہو جائے گا۔
Hemmed from all directions, it will be a confusion worse confounded.
یورپ کی یونٹی بھی متاثر ہو گی۔ یونان اور اسپین ”پرابلم چائلڈ“ ہیں۔ ان کے نکلنے کے واضح امکانات ہیں۔ فرانس اور نیدر لینڈ میں بھی علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ Frexist اور Nrigxit کی باتیں ابھی سے شروع ہو گئی ہیں۔ علامہ نے کہا تھا: جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔ کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ اس آشیانے کے تنکے بکھرنے والے ہیں۔ متحدہ یورپ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ Concept of dumble Europe کو دھچکا لگے گا۔ ڈمبل یورپ کا مطلب یہ ہے کہ یورپ کی مجموعی اقتصادی اور عسکری قوت امریکہ کے برابر ہونی چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ دنیا کساد بازاری کا شکار ہو جائے۔ مسئلے کی گھمبیرتا کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کے جانے کے بعد ہر کوئی وزیر اعظم بننے سے ہچکچا رہا تھا۔