غضبناک ہوئے انقلابیوں سے صرف رحم کی درخواست ہی کر سکتا ہوں

نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی نے کچھ لوگوں کو خوشی سے دیوانہ بنا دیا ہے۔ اس دیوانگی کا بھرپور مظاہرہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے زیر اہتمام منائے ”یومِ تشکر“ کے دوران دیکھنے میں نظر آیا۔ کئی لوگوں نے وہاں ایسے پوسٹر بھی اٹھارکھے تھے جن پر ان عزت مآب ججوں کی تصاویر تھیں جنہوں نے نواز شریف کی نااہلی کا متفقہ فیصلہ سنایا تھا۔ ان ”عظیم ججوں“ کی ستائش میں تحریک انصاف کے رہنماﺅں نے ”یومِ تشکر“ منانے کے لئے جمع ہوئے حاضرین کو بارہا زندہ باد کے نعرے لگانے کی ترغیب بھی دی۔ حتیٰ کہ اپنی تقریر کے دوران عمران خان صاحب نے یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ وہ جس ”نئے پاکستان“ کی تعمیر کرنا چاہ رہے تھے، اس کی ”بنیاد“ سپریم کورٹ کے پانچ عزت مآب ججوں نے نواز شریف کے خلاف سنائے فیصلے کے ذریعے رکھ دی ہے۔ ان کی تقریر سے قبل تحریک انصاف کے فکری گرو اور اس کے جلسوں کو ا پنے ایمان افروز خطاب سے گرمانے والے راولپنڈی کے بقراطِ عصر نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔ ستائش کے ایسے ہی کلمات ریاست کے 6 دائمی اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی کے ”سپر ہیرو“ اراکین کے بارے میں بھی ادا کئے گئے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے فکری گرو کے روئیے سے کئی بار میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ شاید سپریم کورٹ کے پانچ عزت مآب جج اورجے آئی ٹی کے اراکین باہم مل کر اس ملک میں کرپشن کے خلاف تحریک انصاف کی جانب سے چلائی مہم کو ”انقلاب“ کی صورت دینے کی جدوجہد میں کوئی متحرک کردار ادا کررہے ہیں۔
پاکستان کا ایک عام شہری ہوتے ہوئے میں سپریم کورٹ کو اس ملک کا اعلیٰ ترین عدالتی فورم سمجھتا ہوں اس کی جانب سے سنائے کئی فیصلوں پر تحفظات کے باوجود میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس ملک کا ہر شہری اس گمان میں مبتلا رہے کہ یہ فورم حساس ترین سیاسی معاملات پر بھی جنہوں نے وطن عزیز کو اندھی عقیدتوں اور نفرتوں میں تقسیم کر رکھا ہے، انتہائی غیر جانب داری سے صاف اور شفاف ترین انداز میں صرف اور صرف آئین اور قانونی بنیادوں پر انصاف فراہم کرتا ہے۔ اندھی نفرتوں اور محبتوں کے اس موسم میں پاکستان کا اعلیٰ ترین عدالتی فورم کسی ایک متحارب فریق کی ”معاونت“ کرتا نظر آیا تو اس کی توقیر اور ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
انصاف فراہم کرنے والے اعلیٰ ترین فورم جب کسی ایک ”فریق“ کے ساتھ جڑے نظر آئیں تو مخالف فریق میں مایوسی پھیلتی ہے۔ معاشروں میں ہوئی تقسیم ملکوں کو خانہ جنگی کی جانب لے جاتی ہے۔ عراق اور شام میں یہی ہوا تھا۔ اس سے قبل کئی دہائیوں تک لبنان پر بھی ایسی ہی صورتِ حال مسلط رہی تھی۔ مجھے قوی امید ے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی آج کے عراق اور شام جیسا ”نیا پاکستان“ نہیں بنانا چاہتے ان کی خواہش ہوگی کہ ”نئے پاکستان“ میں ان کے بدترین سیاسی اور فکری مخالفین بھی خود کو ان بنیادی حقوق سے قطعاً محروم محسوس نہ کریں جو پاکستان کے شہریوں کو تحریری آئین کے ذریعے مہیا کرنے اور ان کا بھرپور تحفظ کرنے کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ یومِ تشکر کے نام پر ہوئے جلسے نے اگرچہ ایسا پیغام ہرگز نہیں دیا ہے۔ اپنی تقریر کے اختتام پر عمران خان صاحب نے بلکہ آزادکشمیر کے منتخب وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کو ”ذلیل اور گھٹیا انسان“ کہا۔ آزادکشمیر کے باسیوں کو ترغیب دی کہ وہ ان کے گھر کا گھیراﺅ کرتے ہوئے گویا اپنے اس ”گناہ“ کا کفارہ ادا کریں جس کا ”ارتکاب“ انہوں نے راجہ فاروق حیدر کو اپنے ووٹ کے ذریعے وزیراعظم بنانے کی صورت کیا تھا۔
آئینی طور پر چلائے کسی بھی ملک میں اپنے کارکنوں کو سیاسی مخالفین کے گھروں کے باہر دھرنا دینے پر اُکسانا ایک اشتعال انگیز جرم شمار کیا جاتا ہے۔ اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئے آج کے پاکستان نے مگر اس حقیقت کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔ اس ملک میں ”حب الوطنی“ کے تمام خود ساختہ ٹھیکے دار بلکہ یکسو ہوکر راجہ فاروق حیدر کی جان کے درپے ہوگئے ہیں۔ راجہ صاحب بارہا یہ وضاحت دئیے چلے جارہے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کے پاکستان کے الحاق کے خلاف نواز شریف کی محبت میں کوئی کلمات ادا نہیں کئے تھے۔ ان کے تحفظات صرف اور صرف عمران خان کے متعارف کردہ ”نئے پاکستان“ تک محدود تھے۔
راجہ فاروق حیدرکی وضاحتیں مگر کوئی سننے کو تیار ہی نہیں ہو رہا۔ موصوف کے نہ صرف استعفے کا مطالبہ ہو رہا ہے کہ بلکہ ریاست پاکستان کو بھی اس امر پر مسلسل مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ آزادکشمیر جس کا اپنا آئین، قانون ساز اسمبلی اور عدالتی نظام اپنی جگہ موجود ہے، کے وزیراعظم کے خلاف آئین پاکستان کی شق 6 کے تحت غداری کے مقدمات چلائے۔ ”وطن کی محبت“ میں مدہوش ہوئے ان افراد کو یہ احساس ہی نہیں کہ آزادکشمیر میں صاف شفاف انتخابی عمل کے ذریعے منتخب ہوئے وزیراعظم کے خلاف ایسی کارروائی کشمیریوں بحیثیت مجموعی کو کیا پیغام دے گی۔
نام نہاد بین الاقوامی برادری کے سامنے ہمارا دیرینہ اور اصولی مو¿قف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ کشمیر پاکستان کے لئے ”رقبے“ کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم مسلمہ بنیادی حقوق کے تناظر میں اقوام متحدہ کو صرف اس کا یہ وعدہ یاد دلاتے ہیں کہ وہ کشمیری عوام کو ان کا حق خود مختاری فراہم کرے۔ انہیں صاف شفاف ریفرنڈم کے ذریعے یہ موقعہ عطا کرے کہ وہ بیلٹ کے ذریعے یہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ یہ مطالبہ کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں اگرچہ یہ حقیقت بھی ہر وقت موجود رہتی ہے کہ بھارتی قبضے میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے کشمیری ”پاکستان سے رشتہ کیا-لا الہ الاللہ“ کا نعرہ لگاتے ہوئے موت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ اپنی شہادتوں کے بعد پاکستان کے جھنڈے میں لپٹے ہوئے دفن ہوتے ہیں۔پاکستان کے حصے میں آئے آزادکشمیر کے منتخب وزیراعظم کو غداری کے الزام میں اپنے منصب سے ہٹاکر جیل میں ڈالنے کے بعد ہم قضی¿ہ کشمیر پر اپنے ہی مو¿قف کی نفی کرتے نظر آئیں گے۔ ”نئے پاکستان“ کی منزل کو اپنے قریب پاکر وفورِ جذبات سے غضب ناک ہوئے انقلابیوں سے میں صرف رحم کی درخواست ہی کرسکتا ہوں۔ یہ رحم میسر نہ ہو تو عمل کا ردعمل بھی ہوگا جسے سنبھالنا شاید ہم میں سے کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہوگا۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...