28 جولائی2017کونوازشریف خاندان کیلئے بھونچال کادن تھا۔ سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا جس کے مطابق وزیراعظم نوازشریف کو نااہل اور پورے خاندان کے خلاف احتساب عدالتوں میںریفرنس فائل کرنے کاحکم دیاگیا۔ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے مقدمے کی سماعت اورخاص طور پر جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف آئیگا۔ دیکھنا صرف یہ تھاکہ کس حدتک خلاف آتاہے۔ فیصلہ کچھ زیادہ ہی سخت آگیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وکلاءاوردانشور تقسیم ہوگئے اور اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کررہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے کارکن احتجاج کررہے ہیں تو تحریک انصاف نے یوم تشکرمنایا ہے۔ فوج اورعدلیہ پر تنقید شروع ہوگئی ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اتنے سخت فیصلے کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے وقت بھی کہا گیا تھا کہ اتنی زیادہ انفارمیشن ISI کے علاوہ کوئی اکٹھی نہیں کرسکتا اور یہ تحقیقات 60دنوں میں نہیں 60 مہینوں میں اکٹھی ہوئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)کہتی ہے کہ کرپشن کے الزام پرکوئی فیصلہ نہیں ہوا اور نہ ہی پانامہ لیکس پرنا اہلی ہوئی ہے اقامہ حاصل کرنے اور 2013 کے انتخاب میں ڈکلیئرنہ کرنے پرنااہلی ہو ئی جبکہ دیگرمعاملات تو ٹرائل کورٹ میں چلنے ہیں اور اگلے چھ ماہ احتساب عدالت ہی نگاہوں کا مرکز ہوگی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم کے انتخاب پرمعرکہ شروع ہوگیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی45 دن کیلئے ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں جبکہ میاں شہبازشریف کو قومی اسمبلی کا رکن بنا کر 10 ماہ کیلئے وزیراعظم بنایا جائیگا اس لئے تحریک انصاف نے ”گوشہبازگو“کانعرہ بلندکرناشروع کردیا ہے۔ تحریک انصاف نے 2013 کے الیکشن کے نتائج پر زبردست احتجاج کیا تھا اورکبھی بھی نواز شریف حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ پانامہ لیکس نے توتحریک انصاف کونئی زندگی دی تھی جس کے نتیجے میں آج یوم تشکرمنانے کاموقع ملاہے۔
عدالتوں میں جو مقدمات بھی آتے ہیںاس میں ایک سے زیادہ فریق ہوتے ہیں۔ فیصلہ ایک فریق کے خلاف ہوتاہے تو دوسرے کے حق میں۔ جس کے حق میں ہوتا ہے تووہ کہتاہے کہ انصاف مل گیا اورجس کے خلاف ہوتا ہے وہ کہتاہے کہ زیادتی ہوگئی کوئی کہتاہے کہ جج نے سفارش پر فیصلہ کیا توکوئی کہتا ہے کہ رشوت لے لی۔ سیاسی معاملات عدالت میں زیر سماعت ہوں توحکومتی دباﺅکا الزام لگ جاتا ہے اور اگرحکومت کے کسی اقدام پر مقدمہ ہو تو اداروں کے دباﺅکی بات کی جاتی ہے۔ موجودہ مقدمہ وزیراعظم کے متعلق تھا تو پوری فوج کے دباﺅکا کہا جا رہا ہے اورکہتے ہیںکہ بھارت سے دوستی اورڈان لیکس پر سزا دی گئی ہے توکوئی یہ خبربھی دیتاہے کہ سی پیک کنٹرول کرنے پراختلاف تھا فوج اور چین چاہتے تھے کہ سی پیک کی مکمل نگرانی فوج کریگی جبکہ وزیراعظم نوازشریف سویلین بالادستی چاہتے تھے اوراسے فوجی فاﺅنڈیشن بنانے کےخلاف تھے۔بہرحال نئی نئی تاویلیں نکالی جارہی ہیں اور طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ فخر ہے میری نااہلی کرپشن کی وجہ سے نہیں ہوئی۔
اس طرح دوسرافریق خوشیاں بھی منارہاہے اورکہہ رہاہے کہ انصاف ہواہے۔حق کی فتح ہوئی ہے۔سپریم کورٹ نے نئی تاریخ لکھ دی ہے اوراب نیا پاکستان بنے گا۔ عمران خان نے یوم تشکرپرخطاب کرتے ہوئے کہاکہ نوازشریف کرپشن پرنااہل ہوگئے۔اب عدالت کا سامنا کرنے کیلئے اگلی باری زرداری کی ہے جس کے بعد مولانا فضل الرحمان کاپیچھا کرینگے۔ طاہرالقادری نے کہاکہ عدالت میں جاکر غلطی کی ہے۔نیاپاکستان کی بنیادسپریم کورٹ نے رکھ دی ہے۔ میچ ابھی ختم نہیں ہوا۔ دوسری طرف وزیراعظم آزادکشمیراوروزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے بغیر سوچے سمجھے بیان دے دیاہے۔ کیا فضول بات ہے کہ یہ کہا جائے کہ اب سوچیں گے کس ملک سے الحاق کرناہے جبکہ نوازشریف کی نااہلی کوبغاوت کہنا قانون اورآئین سے ناواقفیت کی با ت ہے۔انکے بیانات نے طوفان کھڑا کردیا ہے۔جذبات میں ملکی سا لمیت کوکھیلنے کی کوشش کی گئی جس پرشدیدردعمل ہواتوپھرتردیداوروضاحت کرنی شروع کردی جذبات کوکنٹرول کرناچاہئے اورسیاست کی خاطر ملک کو نقصان نہیں پہنچاناچاہئے۔
میں اس سارے ردعمل پرکچھ بھی نہیں کہنا چاہتا ماسوائے اسکے کہ جذبات پرقابواورملکی سا لمیت کاخیال رکھنا چاہئے۔فیصلے پرخوش ہونیوالوں اورناراض ہونے والوںکیلئے ملک سب سے پہلے ہوناچاہئے ۔کل کوعمران خان کامعاملہ ایساہواتوپھرکیاہوگاتوکیاسپریم کورٹ بُری ہوجائیگی اورفیصلہ دباﺅکانتیجہ ہوگا؟اس لئے اس فضاءسے نکلناچاہئے اورآگے کی طرف دیکھنا چاہئے۔ اداروں کوکمزورکرکے ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ملک محاذآرائی کامتحمل نہیں ہوسکتا۔قومی اتفاق رائے کی طرف جاناچاہئے اوراگراس کیلئے نئے انتخاب کرانا پڑیں توکرائے جائیں۔تحریک انصاف اورمسلم لیگ (ن) اپنی اپنی وجوہات کی بناءپر2017میں انتخاب نہیں چاہتے لیکن سیاسی بحرانوں کاحل صرف اورصرف فریش مینڈیٹ ہوتاہے۔خواجہ سعدرفیق سیاسی کارکن ہیں انکے والدنے بھی جمہوریت کیلئے قربانی دی اوراب خودطالب علمی کے زمانے سے جمہوریت کیلئے جدوجہدکررہے ہیں۔جنرل مشرف حکومت میں قیدوبندکی صعوبتیںبھی برداشت کیں۔ میجر سیف نے انکوجھکانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔خواجہ سعدرفیق نے موجودہ صورتحال سے دلبرداشتہ ہونے کی بجائے سیاسی تجاویزدی ہیں۔جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعدبھی سیاستدانوںکوخیال آیاتھا اور ARD کاقیام عمل میں لایاگیاتھا۔لوگARDکوآگ اور پانی کاملاپ کہتے تھے ARDنے میثاق جمہوریت دیا اور سیاست میںنئے طریقے اختیارکرنے کی بات کی۔ان پر کتنا عمل ہوا اورکتنانہیں اس پربحث ہوتی رہے گی لیکن بے نظیر بھٹو اور میاںنوازشریف کے اکٹھے ہوکرمحب وطن سیاستدان ہونے کاثبوت دیا تھا جسکاکریڈٹ نوابزادہ نصراللہ کوجاتاہے۔خواجہ سعدرفیق نیامیثاق جمہوریت چاہتے ہیں آئین میں62,63میں تبدیلی چاہتے ہیںاورانکی یہ بھی خواہش ہے کہ عوامی مینڈیٹ کافیصلہ چندلوگوں کونہیں کرناچاہئے۔بدقسمتی یہ ہے کہ اقتدارمیں ہوتے ہوئے کوئی حکمران اصلاح کی بات نہیں کرتا۔2013سے لیکرآج تک الیکشن اصلاحات نہیں ہوسکیںاب میاںنوازشریف کے خلاف فیصلہ آیاہے توآئین میں تبدیلی اورعدلیہ کے اختیارات پربات ہورہی ہے۔ سیاسی اصلاحات ہونی چائیں اورآئین میں تبدیلی بھی آنی چاہئے یہ پارلیمنٹ کافرض ہے کہ وہ اپنارول اداکرے۔افسوس یہ ہے کہ حکومت کے لوگ پارلیمنٹ میں آناپسندنہیں کرتے کوئی ایجنڈاطے نہیں کرتے ۔میںسمجھتاہوںکہ آئین میں تبدیلی کیلئے اور موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے نیاالیکشن ہی بہترین راستہ ہے اورآئین میںمکمل تبدیلی کیلئے لوگوں سے فریش مینڈیٹ لیا جائے۔ دنیابھرمیںیہی راستہ اختیارکیاجاتاہے آج بھی وقت ہے کہ ہمارے سیاستدان ہوش کے ناخن لیں،بغاوت اورملک سے علیحدگی کا سوچنے کی بات نہ کریںکرپشن کوختم کرنے کابھی ایجنڈا بنائیں۔ نیامیثاق جمہوریت ہوناچاہئے اوراسکے ساتھ ساتھ میثاق کرپشن ختم کرنے کابھی فیصلہ کرناچاہئے۔