سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پاکستانی کی سیاسی تاریخ کے دو ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہو گئے پہلا وہ تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے دوم یہ کہ وہ چار مرتبہ حکومت سے برطرف ہوئے، کبھی فوج کے ذریعے، کبھی عدالت کے ذریعے، کبھی غلام اسحاق خان یا جنرل کاکڑ کے فارمولے پر، پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں 17 ویں وزیراعظم تھے جس سے ثابت ہوا کہ ستر سال میں کسی بھی وزیراعظم نے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل نہیں کی، اس دوران مہمان اداکار کی حیثیت میں کچھ وزراءاعظم آئے جن میں مرحوم غلام مصطفے جتوئی، بلخ شیر باز مزاری، معین قریشی اور چوہدری شجاعت بھی کچھ دن وزیراعظم ہاﺅس کے ٹھنڈے کمروں اور اعلی قسم کے کھانوں اور پروٹوکول کا کچھ دنوں مزہ لیتے رہے۔ ان میں سب سے اول میاں نواز شریف آئے جو ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بعد سب سے زیادہ عوام ووٹ لینے والے وزیراعظم تھے، ان ستر سالوں میں پاکستان کے معصوم عوام کی رائے کو کیوں روندا گیا؟؟ اسکا جواب بہت مشکل ملے گا۔ میری سمجھ میں میاں صاحب کا جانا اور آنا سمجھ آتا ہے، میاں صاحب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے فرد ہیں، پنجاب میں میاں صاحب کا بہت کام ہے، پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں جس نے پنجاب میں عوام کی رائے اپنی حمائت میں حاصل کی وہ ہی ملک کے مرکز میں حکومت بناتا ہے چونکہ آبادی کے مناسبت سے اسمبلی میں ممبران کی تعداد پنجاب میں زیادہ ہوتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پہلی دفعہ عوامی سیاست کو روشناس کرایا تھا اور ایک عام آدمی کو ووٹ ڈالنے اور سیاست میں حصہ لینے کو شوق ہوچلا تھا، اسلئے جب انہوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو وہ صرف پنجاب نہیں بلکہ پاکستان کے تمام صوبوںمیں مقبول ہونے کی بناءحکومت بنا سکے ماسوائے اتحادی حکومتوں جو انہوں نے شائد سرحد اور بلوچستان میں بنائی تھیں۔ مرحوم ضیاءالحق نے بھٹو کو عدالتی حکم جو (آج تک صحیح ثابت نہ ہوسکا) اپنے اقتدار کو بچانے، سیاست سے پی پی پی کو باہر کرنے کی خواہش میں علاقائی تنظیموں، جی ایم سید، الطاف حسین کی پیٹ تھپکی اسطرح ہر صوبے میں علیحدہ حکومت بننے لگی، مگر ضیاءالحق کو سوچ پی پی پی کو سندھ سے نہ نکال سکی اور لسانیت کو فروغ ملا اور آج تک جو حکومتیں آئیں وہ پاکستان کی حکومتیں برائے نام ہی رہیں اس دوران صوبائی حکومتیں لسانیت کی بنیا پر ہی بنیں اور آج تک بن رہی ہیں۔ میاںنواز شریف نے بھی پنجاب میں ابتداء”پنجاب بنک“ سے کی۔ فوجی آمریتوں کی بناءپر ملک میں سیاسی جماعتیں طاقتور نہ ہوسکیں، یہ بات اپنی جگہ کہ اقتدار کی ہوس میں سیاسی جماعتیں جو عوام میں مقبول ہوکر اقتدار میںآنے سے قاصر تھیں انہوں نے ہی فوج کے کچھ لوگوںسے ساز باز کرکے اپنی حمائت کا یقین دلاتے ہوئے انہیں اقتدار کی دعوت دی اور انکے آنے پر بھنگڑے ڈالے، ضیا الحق نے تو سیاست دانوں کو سر عام بے عزت کیا او ر کہا کہ یہ سب جاہل ہیں سیاست کی ABCD کا بھی نہیں پتہ۔ اسوقت بڑے نامور سیاسی لیڈران ضیاءالحق کی سربراہی میں اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ مسلم لیگ ڈھکے چھپے انداز میں نہ جانے کیا کہنا چاہتی ہے کہ انکے خلاف سازش کس نے کی ، کچھ سابق وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس میںبات کہی ہے مگر سمجھنے کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے مشاورت میںشامل نہیں کیا جاتا کہا جاتا ہے کہ میں فوج کا آدمی ہوں“ ان الفاظ کے اندر بہت سا بلکہ سب کچھ سمجھ آرہا ہے اگر سمجھا جائے تو اور اللہ کرے غلط ہو چونکہ فوج تو اسوقت پاکستان کی ایک آخری امید ہے چونکہ اسوقت فوج اقتدار کی ہوس سے میلوں دور صرف اور صرف ایک پیشہ ور فوج ہونے کا ثبوت دے رہی ہے اور ملک کو دہشت گردی کے دلدل سے نکالنے کیلئے تو صرف یہ ہی ادارہ برسرپیکار ہے ورنہ ہم کہیں کے بھی نہیں، افواج پاکستان کی تگ و دو کے بعد بھی دہشت گردوںکو کہیں موقع ملتا ہے وہ اپنا داﺅ لگانے سے باز نہیں آتے اسلئے ایسی فوج جسے اقتدار سے کوئی لالچ نہ ہو، ڈان لیک ہو پھر بھی بقول چوہدری شجاعت ”مٹی پادی گئی“ پھر اسی فوج کا آدمی ہونے پر ہر پاکستانی کو فخر ہونا چاہئے۔کچھ لوگ میاں صاحب کو ملنے والے تمام عوامی مینڈیٹ کے بعد بھی مختلف نازک مراحل میں ”کڑاکے کڈ دو“ کا مشورہ دینے والے ہی میاں صاحب کے اقتدار کے جانے کا سبب بنتے ہیں جسکا ادراک میاں صاحب کو سابقہ ”کڑاکے کڈدو“ کے مشورہ کے بعد ہوجانا چاہئے تھا۔ مگر میاں صاحب قسمت کے دھنی ہیں کہ انکے مد مقابل پی پی پی اپنی زیادہ چادر پھیلا نہیں سکتی انکی بھی پالیسیوںمیں کوئی یکسانیت نہیں۔ دوسری مخالفت عمران کی ہے انکا کوئی حال نہیں جہاںضمنی انتخابات ہوں وہاں شکست کھا جاتے ہیں۔ ویسے خوش نصیبی میاںصاحب کی ہے کہ عدالت اعظمی نے شائد انہیں دوبارہ بھر پور انداز میں کامیاب ہونے کیلئے انہیں اقامہ رکھنے کا الزام لگا کر برطرف کیا جس کا معاملہ عدالت میں جائیگا ۔ جب تک میاںنواز شریف اقتدار کی مسند پر آنے میںکامیاب نہیں ہوتے یہ توقع قوی ہے کہ میاں شہباز شریف جنکی شہرت ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر کی ہے، ساتھ ہی وہ کسی ”کڑاکے کڈ دو“ والوںکو اپنے پاس بھی نہیں پھڑکنے دیتے۔ نیز جب جب بھی میاںنواز شریف کو کسی ’ادارے‘ سے بات کرنی پڑی وہ شہباز شریف اور چوہدری نثار جو شہباز شریف کے بہترین دوستوں میں شمار ہوتے ہیں انہی لوگوں نے ’آگے‘ بات کی۔ اسلئے آئندہ انتخابات تک اگر میاں نواز شریف کی خواہش ہوئی تو میاں شہباز شریف انکے لئے راہ ہموار کرچکے ہونگے۔ یہ علیحدہ بات کہ سیاست میں تحریک انصاف نے جو کلچر متعارف کرا دیا ہے اس صورتحال میں کسی حکومت کو آرام سے کام کرنا مشکل ہے چونکہ ملک کی اقتصادی حالات سے تحریک انصاف کا کوئی سروکار نہیں انکی بلا سے CEPEC ہو نہ ہو، ملک کی شیئر مارکیٹ کا بڑہ غرق ہو نہ ہو، شور مچاتے رہنا ہے کہ اقتدار کرنے کا حق صرف انہیںکا ہے؟ معروف ہونے کا پتہ کرنا تھا تو وزیراعظم کا انتخاب اسمبلی میں لڑ لینا چاہئے تھا بے چارے شیخ رشید کو کیوںجھونک دیا۔ ویسے شیخ صاحب کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی، ایک دفعہ پنچاب کے دیہی علاقے جانے کا اتفاق ہوا ایک مکان پر نام کی تختی دیکھی ”سابق امیدوا ر صوبائی اسمبلی چوہدری ۔۔۔۔۔ ۔ معلوم ہوا کہ ذولفقار علی بھٹو کے زمانے میں تیس سال قبل انتخاب لڑا تھا صوبائی اسمبلی کا ہار گئے تھے ، تو کم از وزارت اعظمی کے حالیہ انتخابات کے بعد ہمارے دوست شیخ رشید اپنے تعارفی کارڈ پر اور لال حویلی پر لکھوا سکتے ہیں ”سابق امیدواروزارت اعظمی برائے 45 دن“ انکا حق بنتا ہے وہ عمران خان کا شکریہ ادا کریں۔