ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضے نبھانا ہی عمران خان کیلئے بڑا امتحان ہوگا

Aug 02, 2018

آئی ایم ایف سے ممکنہ بیل آﺅٹ پیکیج پر پاکستان کو امریکی دھمکی اور چین کا امریکہ کو مسکت جواب
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ہم اس بات پر نظر رکھیں گے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ممکنہ بیل آﺅٹ پیکیج کو چینی قرضوں کی ادائیگی کیلئے استعمال نہ کر پائے‘ پاکستان کو بیل آﺅٹ پیکیج دینے کا کوئی جواز نہیں۔ گزشتہ روز امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے پومپیو نے کہا کہ امریکہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ہے تاہم اسکے بارے میں آئی ایم ایف کو کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ انکے بقول ایسے بیل آﺅٹ پیکیج کا کوئی جواز نہیں جس سے چینی قرضے ادا کئے جائیں۔ انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے‘ ہم اس حوالے سے آئی ایم ایف کے اقدامات پر نظر رکھیں گے۔ گزشتہ دنوں ”فنانشل ٹائمز“ نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے 12‘ ارب ڈالر قرض کے پیکیج کی تیاریاں کررہا ہے تاہم آئی ایم ایف کے ترجمان نے اسکی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کی جانب سے کسی قسم کے بیل آﺅٹ پیکیج کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی اور نہ ہی اس سلسلہ میں پاکستانی حکام سے کوئی بات ہوئی ہے۔ اسکے باوجود امریکی وزیر خارجہ نے دھمکی آمیز لہجے میں باور کرا دیا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کیا کرتا ہے۔
دوسری جانب چین نے پاکستان کیلئے آئی ایم ایف بیل آﺅٹ مجوزہ پیکیج پر کی گئی امریکی تنبیہہ پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اس معاملہ میں اپنے قوانین پر عملدرآمد کی ہی توقع ہے۔ اس سلسلہ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے اپنے بیان میں کہا کہ آئی ایم ایف سے متعلق معاملات پر پاکستان مناسب طریقے سے نمٹ لے گا۔ آئی ایم ایف کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں‘ اسے کسی سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین جنوبی ایشیاءمیں سرمایہ کاری کیلئے امریکہ سمیت تمام ممالک کو شراکت داری کی دعوت دیتا ہے اور تمام ممالک کے ساتھ ترقی و خوشحالی کا سفر مل کر طے کرنے کا خواہش مند ہے۔ انکے بقول ہم سب مل کر علاقے میں عوامی خوشحالی کیلئے حقیقی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مل کر علاقائی امن و استحکام‘ ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کرنا ہے نہ کہ ہمیں تنازعات میں الجھنا چاہیے۔
عمران خان کی متوقع حکومت کیلئے جو چیلنجز منہ کھولے کھڑے ہیں‘ ان میں پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی آنچ نہ آنے دیکر امریکی ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کیلئے وضع کی گئی پالیسیوں سے عہدہ برا¿ ہونے اور اس ناطے سے خودانحصاری کی پالیسی کے تحت پاکستان کی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے چیلنجز بھی شامل ہیں۔ اگر ہم خودانحصاری کی پالیسی اختیار کرکے خود کو بیرونی قرضوں کے شکنجے سے باہر نکال لیتے ہیں تو ہمیں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط زیربار رکھ سکیں گی نہ ہمیں کسی امریکی ڈکٹیشن پر سرِتسلیم خم کرنے کی کوئی مجبوری لاحق ہوگی مگر عمران خان کو تو ابھی وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھنا نصیب بھی نہیں ہوا کہ انکی متوقع کابینہ کے متوقع وزیر خزانہ اسدعمر نے 25 جولائی کے انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے اگلے ہی روز قوم کو یہ ”مژدہ“ سنا دیا کہ قومی معیشت کو سنبھالنے کیلئے ہمیں بیل آﺅٹ پیکیج کی خاطر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑیگا۔ یقیناً اسدعمر کے اس بیان کی بنیاد پر ہی ”فنانشل ٹائمز“ کو بھنک پڑی ہوگی کہ پاکستان آئی ایم ایف سے 12‘ ارب ڈالر قرض کے پیکیج کی تیاری کررہا ہے چنانچہ اس نے اس معاملہ میں امریکہ کو چوکنا کرنے کیلئے یہ سٹوری دینے میں کسی تامل سے کام نہیں لیا اور امریکی وزیر خارجہ نے بھی اس سٹوری کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرکے یہ باور کرانے میں ذرّہ بھر دیر نہیں لگائی کہ آئی ایم ایف سے لیا گیا بیل آﺅٹ پیکیج چینی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہرگز استعمال نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی آئی ایم ایف کو ایسا بیل آﺅٹ پیکیج پاکستان کو دینے کی کوئی غلطی کرنی چاہیے۔ یہ تو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو اس جرم کی سزا دینے کا عندیہ ہے جو اس سے ابھی سرزد بھی نہیں ہوا مگر امریکہ نے سزا کا تعین ابھی سے کردیا ہے۔
یقیناً یہ مسلم لیگ (ن) کی بھی غلطی تھی کہ اسکی حکومت کشکول توڑنے کا اعلان کرکے یہی کشکول اٹھائے پھر آئی ایم ایف کے در پر چلی گئی جبکہ پیپلزپارٹی نے اپنے اقتدار سے رخصت ہوتے ہوئے آئی ایم ایف کے واجب الادا قرضوں کی قسطیں کلیئر کردی تھیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں آنے کے بعد ڈانواں ڈول قومی معیشت کو سنبھالنے کیلئے آئی ایم ایف کے قرضوں کے احیاءکیلئے کشکول توڑنے کا اعلان کرنے کے باوجود اسکی جانب رجوع کرنا پڑا تو اس سے قومی معیشت کی زبوں حالی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
2013ءکے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) تو ایک مقبول عوامی پارٹی کی حیثیت سے اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر وفاق اور دو صوبوں میں حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آئی تھی جو اپنی قومی خارجہ اور اقتصادی پالیسیاں وضع کرنے میں آزاد تھی مگر پی ٹی آئی تو پورا زور لگا کر بھی تن تنہاءاقتدار میں آنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جس کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں اسے ایک مضبوط اور سخت اپوزیشن کا سامنا ہوگا جس کے باعث ملکی اور قومی مفادات کے حوالے سے اسکی پالیسیوں کی پارلیمنٹ کے اندر بھی سخت گوشمالی ہوتی رہے گی اور پارلیمنٹ کے باہر اسے سخت عوامی ردعمل کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری پر ہلکی سی بھی مفاہمت پی ٹی آئی کی حکومت کے گلے پڑ سکتی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے قائدین اپوزیشن کی حیثیت سے ایسے ہی معاملات پر سابق حکمرانوں کو زچ بھی کرتے رہے ہیں۔
اگر اسدعمر نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے ہی بیل آﺅٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا عندیہ دے کر امریکہ کو پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کیلئے اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے الرٹ کردیا ہے جس کیلئے امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے ہمیں پیشگی پیغام بھی مل چکا ہے تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو اپنے دور اقتدار میں مشکلات‘ بحرانوں اور چیلنجز کے کتنے دریاﺅں کا سامنا رہے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان پر سختیاں توڑنے والی ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں پر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکت جواب دینا‘ نومور کہنا اور قومی مفادات پر کوئی آنچ نہ آنے دینا عمران خان کی حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار میں تو امریکی ڈومور کے تقاضوں سے زچ ہو کر بالآخر اسے ”نومور“ کہنے کی پالیسی اختیار کرلی گئی تھی اور اس کیلئے عالمی اقتصادی پابندیوں کی امریکی دھمکی پر بھی چین‘ روس‘ ترکی‘ سعودی عرب اور یورپی یونین کے ساتھ روابط مستحکم بنا کر ملکی خودمختاری کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کو مو¿ثر جواب دے دیا گیا تھا نتیجتاً ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اعتماد سازی کی بحالی کیلئے اسکے ساتھ مختلف سطحوں پر روابط کا آغاز کردیا گیا۔ اگر اب پی ٹی آئی کی آنے والی حکومت قومی مفادات پر کسی قسم کی مفاہمت کا عندیہ دینے والے کسی ایسے اقدام کی جانب پیش رفت کرتی ہے جس پر سخت عوامی ردعمل سامنے آسکتا ہے تو اس کیلئے اپنے اقتدار کے قلعہ کو مضبوط بنائے رکھنا بہت مشکل ہو جائیگا۔ اسدعمر نے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا عندیہ دیکر پی ٹی آئی کا اقتدار تشکیل پانے سے پہلے ہی اسکی بنیادیں ہلا دی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین ہمارا قابل بھروسہ پڑوسی دوست ملک ہے جس کی بے لوث دوستی آزمودہ ہے چنانچہ ہماری سلامتی سے متعلق معاملات پر چین ہم سے بھی زیادہ بلند آہنگ کے ساتھ ہمارا دفاع کرتا نظر آتا ہے۔ وہ کشمیر ایشو پر بھارت کو بھی دوٹوک جواب دے چکا ہے جبکہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کےخلاف زہریلی بھارتی سازشوں کے توڑ کیلئے بھی چین ہی پیش پیش ہے۔ اسی طرح چین نے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے بھارتی کوششوں کی بھی ہم سے بڑھ کر مخالفت کی اور پھر ایٹمی کلب میں بھارتی شمولیت کی کوششیں بھی ناکام بنائیں۔ اس وقت چونکہ سی پیک کی بنیاد پر پاکستان اور چین کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہو چکے ہیں اس لئے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کے آگے بھی چین ہی دیوار بن کر کھڑا نظر آتا ہے۔ اس نے اگر سی پیک کیلئے پاکستان کو قرضہ دیا ہے تو اسکی وصولی سی پیک کے اپریشنل ہونے کے بعد ہی پاکستان کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی بنیاد پر ہونی ہے مگر امریکہ کے ابھی سے کان کھڑے ہوگئے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے بیل آﺅٹ پیکیج لے کر کہیں یہ رقم چین کو اقتصادی طور مزید مضبوط بنانے کیلئے بروئے کار نہ لے آئے۔ امریکہ کو درحقیقت خوف ہی یہی لاحق ہے کہ چین کہیں مضبوط اقتصادی قوت بن کر اس کا سپرپاور ہونے کا زعم نہ توڑ دے۔ اسی تناظر میں اسے پاک چین دوستی اور تعاون بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا چنانچہ وہ بھارت کی سرپرستی کرکے اسکے ذریعہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کے تانے بانے بن رہا ہے۔
یقیناً چین کو ان سازشوں کا پہلے ہی ادراک ہے اس لئے اس نے آئی ایم ایف کے قرضوں کے حوالے سے پاکستان کو دی گئی امریکی دھمکی پر سخت ردعمل ظاہر کرنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگائی۔ اس سلسلہ میں اصل امتحان تو ہماری آنیوالی حکومت کا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کار برقرار رکھ کر چین کے ساتھ اقتصادی اور دفاعی تعاون کو کس طرح مضبوط بناتی ہے۔ اگرچہ چینی سفیر عمران خان سے ملاقات کرکے انہیں پاکستان کیلئے چین کے تعاون کا مکمل یقین دلا چکے ہیں پھر بھی ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تحفظ کی پالیسیوں میں پیش رفت تو ہم نے خود کرنی ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ وہ اس سے عہدہ برا¿ نہیں ہو پائے گی تو پھر عوامی ردعمل کے سامنے بھی نہیں ٹھہر سکے گی۔ اقتدار یقیناً پھولوں کی سیج نہیں‘ اس کا اصل ادراک عمران خان کو اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی ہوگا۔

مزیدخبریں