تمام رکاوٹیں دور ہوتی جا رہی ہیں وزارت عظمی اور عمران خان کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ باقی رہ گیا ہے لیکن وزارت عظمی پھولوں کا تاج نہیں عمران خان کےلئے حقیقی معنوں میں کانٹوں کی مالا ہوگی۔ پہلے دن سے کاروبار حکومت چلانے کےلئے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی جس کےلئے عمران خان کو ذاتی طور پر امریکہ اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں سے بینکوں کے ذریعے غیرملکی کرنسی میں رقوم اپنے گھر والوں کو بھجوانے کی اپیل کرنا پڑے گی بصورت دیگر آئی ایم ایف سے بیل آﺅٹ پیکج کی بھیک مانگنا ناگزیر ہو گا جس پر پاکستانی نژاد امریکی “بیوو¿اگان” نے قبل از وقت واویلا شروع کردیا ہے کہ کیا ریاست مدینہ قرض کی بھیک مانگتے اچھی لگے گی۔ ریاست مدینہ کی اصطلاح سن کر اصل میں ان گم کردہ راہ عناصر کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سارا مغرب فلاحی ریاست کے ماڈل ‘ مدینہ‘ سے بخوبی آگاہ ہے دوسرے یہ کہ ان میں سے بےشتر نے کل بھوشن کو فوری پھانسی کا مطالبہ شروع کردیا ہے جانتے بوجھتے کہ ان کے ممدوح نوازشریف کی دیدہ دانستہ نا اہلی کی وجہ سے یہ مقدمہ اب عالمی عدالت انصاف کے پاس زیر سماعت ہے۔ لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی اور پاکستان کو واپسی گمبھیر مسئلہ ہے جس میں سے 200 ارب ڈالر تو سوئس حکومت پاکستان کو واپس کرنے کو تیار تھی جو اس وقت کے چیئرمین طارق باجوہ کے عمداً تساہل کی وجہ سے کھوہ کھاتے میں جاگرے ہیں ان سے اس کا حساب کتاب لازم ہے۔ دنیا کی جدید تاریخ کی سب سے بڑی 12 ارب ڈالر کی ڈکیتی کا حساب بھی پہلی فرصت میں کرنا ہوگا جب ایٹمی دھماکوں کے موقع پر ڈالر اکاو¿نٹ منجمد کر دئیے گئے تھے اسی طرح قرض اتارو ملک سنوارو کے اکاﺅنٹس کا آڈٹ بھی کرانا ہو گا جس کا کوئی حساب کتاب نہیں مل سکا تھا۔ مدتوں پہلے اس کالم نگار کے دوست (جو اس وقت اکاو¿ٹننگ جنرل پنجاب تھے اور اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں ) نے انکشاف کیا تھا کہ مالیاتی لوٹ کھسوٹ کا یہ عالم ہے کہ 1400 ایمرجنسی اکاو¿نٹس کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جن کی قانون میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خیال غالب یہ ہے دھرتی ماں سے پیار کرنے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں افسران دن دہاڑے جاری رہنے والی اس ڈکیتی بارے مدد کرنے کو تیار ہیں۔
سلام صد سلام 80 سالہ بزرگ پختون حاجی غلام احمد بلور کےلئے جنہوں نے باوقار طریقے سے شکست تسلیم کرکے حق کا بول بالا کیا اور سچائی کا ساتھ دیا لیکن ہمارے نام نہاد جمہوریت پسندوں نے بزرگ بلور کی بات پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اسی طرح پنجابی دانش کی پرشکوہ علامت چودھری شجاعت حسین نے جس بے لوث طریقے سے کپتان خان کی غیر مشروط حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے اس پر ان کو شرم آنی چاہئے جو چودھری شجاعت کی سخت شرائط اور جوڑ توڑ کی جھوٹی خبریں چلاتے رہے۔
وزارت عظمی کا حلف اٹھانے سے پہلے درپیش اہم ترین مسلہ موذی مودی کو تقریب حلف وفاداری میں بلانے کا ہے۔ بھارت نواز حلقوں کے سینوں پر صرف مودی کی روایتی فون کال پر سانپ لوٹ رہے ہیں کہ عمران خان برابری کی سطح پر باوقار انداز میں بھارت سے معاملات کو کیسے طے کر رہا ہے۔ اس کالم نگار کا خیال ہے کہ مودی اور سارک سربراہوں کو تقریب حلف وفاداری میں بلانا چاہئیے۔
وفاقی حکومت کی مختلف اداروں‘وزارتوں اور محکموں میں ہزاروں سیاسی بھرتیاں کی گئی ہیں جن میں سینکڑوں اداروں کے نا اہل سربراہان بھی شامل ہیں پہلے 90 دنوں میں انکی صفائی ناگزیر ہوگی۔ عام انتخابات نے کئی دلچسپ پہلو منکشف کئے ہیں۔ سرفہرست ایک جماعت کا قومی سطح پر اکثریتی پارٹی کے طورپر ابھرنا ہے جس کی بنیاد مذہبی یانسلی تفریق نہیں بلکہ قومی وفاقی جذبہ حب الوطنی ہے۔ سیاست کے بڑے کھلاڑی اور ب±ت تصور ہونے والے سب ہی بڑے نام عوام نے سیاسی اکھاڑے سے اٹھا کر باہر پھینک دئیے ہیں۔ یہی حال ایم کیوایم کا بھی ہوا ہے۔ عوام نے عام انتخاب میں کراچی میں ایم کیوایم کو دیس نکالادے دیا۔ حضرت نعمت شاہ ولی کی پیشگوئیوں کو یاد رکھنے والوں کی یہ تشریح سامنے آ رہی ہے کہ سبز آنکھوں والے مجاہد کے ظہور کا ایک پہلو یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ان انتخابات میں عوام نے جس جنون، قومی جذبے کا مظاہرہ کیا ہے کہیں سبز آنکھوں سے مراد یہی جنون اور جذبہ تو نہیں۔ سبز آنکھوں والے اس مجاہد کے بارے میں یہ تصور چلا آ رہا ہے کہ وہ قوم کے تمام دالدّر دور کردیگا۔ ملک وقوم کی خوشحالی کے ایک شاندار اور تابندہ دور کا آغاز کریگا۔
عمران خان اور انکی جماعت کیلئے کیا کیا چیلنجز درپیش ہیں۔ اسکی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ کہاجارہا ہے کہ پاکستان اس وقت جن حالات کا شکار ہے یہ 71 سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔ پاکستان ایسے خطے میں ہے جہاں جنگ جاری ہے۔ اس پر جدید جنگی اصطلاح کے مہلک انداز پوری قوت سے یلغار کر رہے ہیں۔ اقتصادی بدحالی کوئی راز نہیں۔ ڈالر معاشی چیخیں نکلوارہا ہے۔ تیز ہوا میں ا±ڑتی پتنگ کی مانند ڈالر روپے کی قدر کو پاﺅں تلے مسلسل روندے جارہا ہے جس سے پریشانیوں اور تفکرات کی نئی سیاہ گھٹائیں اقتصادی آسمان کو ڈھانپ چکی ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی بھی ایک الگ سردرد ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں نئی تشکیل پانے والی حکومت کو بیل آﺅٹ پیکج سے پہلے امریکیوں کے ساتھ بھی دو دو ہاتھ کرنے پڑیں گے جو ابھی سے آئی ایم ایف کو آنکھیں دکھارہا ہے کہ وہ پاکستان کو پیسے نہ دے کیونکہ وہ چینی قرض کی ادائیگی کی نذر ہوجائینگے۔ امریکہ اور چین کے درمیان پہلے سے جاری کشمکش اب راز نہیں۔ ٹیرف پر جھگڑے اور پابندیاں دیکھیں اور ان کا تجزیہ کیاجائے تو بلا خوف تردید یہ کہاجاسکتا ہے کہ امریکہ اور چین عملاً اقتصادی جنگ شروع کرچکے ہیں۔
تحریک انصاف حکومت کو بلاشبہ ایسا متبادل پلان دینا ہوگا جس میں معاشی انحصار آئی ایم ایف پر نہ ہو اور آمدن کے متبادل ذرائع دستیاب ہوں۔ یہ عمران خان حکومت کا اولین چیلنج ہے جس پر بہت کچھ انحصار ہوگا۔ اسکے علاوہ فوج کے ساتھ انکے تعلقات کار بھی نہایت اہم پہلو ہے۔ اس قومی ادارے کو ماضی میں جس انداز سے پولیس بنانے کی خواہش غلط رکھنے والے خود عبرت کا نشان بن چکے ہیں۔ عمران خان کو پھونک پھونک کر چلنا ہوگا۔ آبپارہ چوک سے اب وزیراعظم کی ک±رسی تک رویوں کا سفر کیا گ±ل دکھاتا ہے۔ آنےوالے دن ہمیں اسکی خبر دینگے۔ عمران خان کا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ تجربہ کار ٹیم ا±نکے پاس نہیں۔ انہیں دانائی اور حکمت رکھنے والے مشیر تلاش کرنا ہونگے۔ تحریک انصاف کیلئے فوری چیلنجز میں سب سے نمایاں ایک ایسی شاندار اور مثالی ٹیم کی تیاری اور دستیابی ہے جو گوناں گوں مسائل کے گرداب میں گھِری ملک کی کشتی کو ترقی اور خوشحالی کے ساحل تک لانے کی اہل ہو۔ پارٹی کے اندر جاری کشمکش اور رسہ کشی پر قابو پانا ہوگا۔ سنا ہے عہدوں اور سیاسی مفادات کا ملاکھڑا جاری ہے جس میں ملک بھر سے ایک سے ایک بڑا کھلاڑی اپنا اپنا داﺅ کھیل رہا ہے۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ اس افراتفری سے کیا برآمد ہوگا؟ دہشت گردی کا خطرہ بھی منڈلارہا ہے۔ تجزیہ نگاراس خدشے کا اظہار کرررہے ہیں کہ اس عفریت کا دوبارہ حملہ آور ہونا دکھائی دے رہا ہے۔ عمران خان کا اس معاملے میں بھی کڑا امتحان ہوگا کہ وہ اس نجاست سے کیسے نمٹتے ہیں جس کا ایک نہیں کئی مضمرات اور عوامل ہیں۔ اس حساس ترین مسئلے کو کتنی عقل مندی، توازن اور چابک دستی سے نمٹاتے ہیں، انکے قائد ہونے کے بارے میں عوام کی منفی یا مثبت رائے بنانے میں کلیدی فیکٹر ہوگا۔ قومی اور جماعتی مسائل کے علاوہ خود عمران خان کو اپنی ذات کے حوالے سے بھی کئی اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں ا±نکی انا کی بلند دیوار ہے۔ ناتجربہ کاری سے یہ پہلو دوآتشہ ہوجاتا ہے۔ اس پہلو کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ مہلک ہوسکتا ہے۔ مشیروں کا انتخاب تعین کریگا کہ انہوں نے اپنے لئے کون سی راہ منتخب کی ہے۔ ب±رے مشیروں کی موجودگی سے اچھا نتیجہ تو بہرحال نہیں نکل سکتا۔ ایسا گمان خودفریبی کے سوا اور کیا سمجھا جائےگا۔ زبان زد عام ہے کہ بنی گالہ کی منڈھیر پر پرویز مشرف اور طارق عزیز کے منحوس گدھ اپنے سایے پھیلا چکے ہیں جناب عمران خان کو ایسے مشیروں اور انکے لبرل، سیکولر نظریات سے ازحد محتاط رہنا ہوگا۔