انتخابات اورقومی شعور

پاکستانی قوم نے 25جولائی کے انتخابات میں بھر پور شرکت کر کے دنیا کو جمہوریت سے اپنی وابستگی کا بین ثبوت دیا ہے۔ حالیہ انتخابات بہت ساری وجوہات کی بنیاد پر تاریخ کے سب سے اہم انتخابات تھے۔ دہشت گردوں کی طرف سے سرعام مخالفت اور دھمکیوں کے باعث ملک کے چند حصوں میں عوام کی شرکت کے بارے میں بہت سارے شکوک و شبہات تھے مگر میڈیا کی طرف سے بھرپور آگاہی مہم،موثر انتخابی حکمت عملی عوامی شعور اور مسلح افواج کی جانب سے مکمل تائید وحمایت نے انتخابات کے عمل کو ناصرف یقینی بنایا بلکہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا ٹرن آﺅٹ دیکھنے کو ملا۔ انتخابات میں بھرپور شرکت کے ذریعے پاکستانی قوم نے دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ وہ جمہوریت پر غیرمتزلزل یقین رکھتی ہے اور اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں بنانے کےلئے پرعزم ہے دہشت گردی کے واقعات کی بناءپر ملک کے کچھ حصوں میں انتخابی مہم پر تشدد بھی رہی جس میں بہت ساری جانوں کا ضیاع بھی ہوا اور خوف وہراس کی فضا بھی قائم ہوئی۔ عوام نے اپنے جان ومال کی پرواہ کئے بغیر دہشت گردوں کا سامنا کیا اور اپنے عزم سے انکے مذموم مقاصد کو ناکام بنایا۔ باوجوہ ملکی چند مخصوص سیاسی جماعتیں ان دہشتگرد جماعتوں کا زیادہ نشانہ بنیں مگر کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے قربانیاں دیں ملک کے طول وعرض بالخصوص صوبہ پنجاب اورسندھ میں بھرپور انتخابی مہم چلائی گئی جس میں عوام کا جوش وخروش قابل دید تھا۔ انتخابی مہم میں روایتی مخالفت اور طرز سیاست بھی عروج پر تھی میڈیا کا بھرپور اور موثر استعمال کیاگیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ نوجوان بالخصوص پڑھے لکھے طبقے میں انتخابات کے متعلق غیرمعمولی جوش وخروش دیکھنے کو ملا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے علاوہ تحریک انصاف کی بھرپور شرکت اور پذیرائی نے انتخابی ماحول کو نہ صرف گرم بلکہ دلچسپ بھی بنایا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے آزادانہ ماحول میں عوام تک اپنا پیغام پہنچایا تاکہ وہ کسی مشکل یا عذر کے بغیر ملکی مسائل کو حل کرے ہمارے موجودہ ملکی حالات ومسائل ایک مضبوط مخلص اور دیانتدار حکومت کے متقاضی ہیں۔ ماضی کے تجربات سے یہ بات عیاں ہے کہ مخلوط حکومتیں مسائل کے حل میں ناکام رہیں اب جبکہ انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے اور چند ہی روز میں پرامن انتقال اقتدار کے ذریعے نئی حکومت معرض وجود میں آنیوالی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتائج فراخدلی سے قبول کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا انتخابی بے قاعدگیوں اور دھاندلی کے واقعات کو بھرپور انداز سے اجاگر کررہاہے جس سے کسی تعمیری اصلاح سے زیادہ پورے انتخابی عمل کے بارے میں شک وشبہات بڑھ رہے ہیں تاکہ پورے عمل کو مشکوک بنادیاجائے۔ انفرادی واقعات ہماری روایتی سیاست کا ایک لازمی جزو رہے ہیں اور یقیناً حالیہ انتخابات میں بھی ایسا ہواہے مگرجمہوریت کا تسلسل ہی ایسی روایتی سیاست کا توڑ ہوسکتاہے۔ بدقسمتی سے بعض سیاستدانوں کی طرف سے انتخابی مہم کے دوران نامناسب زبان کا بھی استعمال کیاگیا جس کا نشانہ سیاسی سوچ یا منشور سے زیادہ ذاتیات تھیں۔ میڈیا پر اشتہاری مہم کا مقصد بھی فلسفے یا منشور کی تشہیر سے زیادہ مخالف سیاسی رہنماﺅں کی کردار کشی تھا اور اسکا زیادہ نشانہ مسلم لیگ(ن) ہی بنی۔ جمہوری سوچ اور طرز عمل کا شاخسانہ مثبت اور تعمیری تنقید ہونی چاہیے تاکہ اخلاقیات سے عاری گفتگو یا تشہیری مہم آج کے دور میں عوامی آگہی حقیقت پسندانہ منشور اور سوچ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ایسے وقت میں سیاسی قیادت کا یہ فرض ہے کہ وہ زمینی حقائق کیمطابق حکمت عملی اپنائے اور اپنے ورکرز کو ورغلانے کی بجائے برداشت عمل اور دوسروں کو قبول کرنے کا سبق دے۔ انتخابی نتائج عوامی آگہی، سوچ اور شعور کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں جس کا ثبوت ملک کے مختلف صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی کامیابی کی صورت میں نظرآتاہے عوام نے تمام موثر سیاسی قوتوں کویہ موقعہ دیاہے کہ وہ مختلف صوبوں میں اپنی حکومتوں کے ذریعے حکمرانی کا ماڈل پیش کریں تاکہ یہ بات عیاں ہوسکے کہ کون ملکی مسائل کے بارے میں زیادہ مخلص اور سنجیدہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جمہوری اور مہذب سوچ کےمطابق انتخابی نتائج کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے عوامی رائے کا احترام کیاجائے تاکہ دنیا کو ہم یہ بتاسکیں کہ پاکستانی قوم جمہوریت پر نہ صرف یقین رکھتی ہے بلکہ اسکی اصل روح سے بھی واقف ہے۔ ہمارے مسائل کا حل کسی ایک پارٹی کے بس کی بات نہیں اس کےلئے اتحاد یگانگت اخلاص دیانتداری حب الوطنی قومی سوچ اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔
جب حکومت اتنے بحرانوں میں پنپتی ہے تو ا±س کو فوراً ایشین ٹائیگر نہیں سمجھ لینا چاہیے بلکہ ملک و قوم کو غربت،جہالت اور پسماندگی سے نجات دلانے کیلئے اپنی توانائیوں کا بے مصرف استعمال نہ کریں بلکہ خارجہ پالیسی سے لےکر اندرونی حکمت عملی تک نظر ثانی کریں اور ڈٹ جائیں۔ جو بھی تدبیر او ر تدارک کریں ایسا ہو کہ ہماری جانب ا±ٹھنے والی انگلیاں ہاتھ ملانے کی خواہش کریںالیکشن کے دوران مارے جانیوالے مسلمانوں کا خون حساب مانگتا ہے۔ سیاستدانوں کیلئے بلوچستان ہو یا سندھ پنجاب ہو یا سرحد سب حکومتیں ا±ن کی اپنی حکومتیں ہیں۔ اور یہ ایک بہت ہی مثبت پیغام ہے کیونکہ فرقہ واریت کو ختم کرنے کیلئے حکومت گرانے یا بٹھانے کا ارادہ ہوتا تو پاکستان کیلئے نہ ختم ہونےوالے مسائل کا نیا راستہ ک±ھل جاتا۔ موجودہ حکومت نے آج میں اور تو کے تمام فاصلے ختم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ایک دیہات میں ہل چلانے والے کسان ،بھٹے پہ اینٹیں لگانے والے مزدور سے لےکر پاکستان کے ہر فرد کو ایک ہی پیغام دیا ہے کہ ہم نے کرپشن،بد انتظامی، دہشتگردی،ڈرون اٹیکس، تعلیمی پسماندگی اور فرقہ واریت کی دھجیاں اسلام کی نیام سے انسانیت، محبت بھائی چارے، اتحادو یقین قربانی اور غیرت و حرمت کی تلوار نکال کر ا±ڑانی ہیں۔ دشمنوں سے قربانیوں کا حساب لینا ہو گا۔ پاک فوج کی توقیر بڑھانی ہو گی۔ سرحدوں کی حفاظت جان کی بازی لگا کر بھی کرنی ہو گی مگر یہ سب کچھ مضبوط اور مستحکم معیشت کے بنا ممکن نہیں۔انتظامی مشینری میں بے عمل،بے فائدہ اور جمود کی شکار گردنوں میں احتساب کا طوق ڈالا جائے گا۔حکومت کی فکر اور تگ و دو اب صرف دہشت گری اور لوڈشیڈنگ کےلئے مختص نہیں ہے بلکہ اقلیتوں کے مسائل،خواتین کے حقوق،علاج معالجے کے مسائل، نوجوانوں کے جوہر کامل کی پہچان اور ا±ن کی صلاحیتوں سے استفادہ ،بے گھروں کی آبادکاریاں سب متمع نظر رکھنی ہوں گی۔ دلوں کے ارادے تعمیری سفر پہ چلنے لگیں گے تو ترقی کے تمام راستے کھل جائیں گے۔۔۔کہ اب ہم اپنی اولادوں کے جنازے اور اپنی عمارتوں کے ملبے ا±ٹھا ا±ٹھا کر تھک گئے ہیں۔
پاک فوج کے سربراہ قمرجاویدباجوہ کی طرف سے جمہوری عمل کی مکمل حمایت اور انتخابات کے بروقت انعقاد کے عزم کی مکمل حمایت اور انتخابات کے بروقت انعقاد کے عزم کا اظہار ایک انتہائی حوصلہ افزاءاور خوش آئند بات تھی جس سے دہشت گردی اور ملک دشمن عناصر کی حوصلہ شکنی ہوئی، حالات کچھ بھی ہوں انتخابات کا وقت پر منعقد ہونا بہت ضروری تھا جس کےلئے تمام سیاسی جماعتوں نے شعور بصیرت اور بہادری کا مظاہرہ کیا، قوموں پر اس طرح کے مشکل وقت آتے رہتے ہیں مگر تاریک شاہد ہے کہ کامیاب وہی قومیں ہوتی ہیں جو حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن