یہ خاموشی کیوں، قانون آنکھیں کھلی رکھے

عدالتوں کا کام انصاف فراہم کرنا اور سب سے یکساں سلوک کرنا ہے۔ہماری عدلیہ نے گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ نعرہ بڑے زور وشور سے بلند کیا ۔ عوام نے اس پر واہ واہ کے ڈونگرے بھی برسائے ۔ پھر سب نے دیکھا کہ قانون حرکت میں آیا۔ انصاف کا کوڑا بھی لہرایا سب دل تھام کرمنتظر تھے کہ دیکھتے ہیں کو ن کون سا کرپٹ اب ٹکٹکی پر بندھا نظر آتا ہے کس کس کی پشت پر قانون کا یہ کوڑا برستاہے۔ پھر سب نے دیکھا جس طرح ضیاءالحق کی آمریت میں مارشل لاءکا کوڑا صرف اور صرف پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں اور کارکنوں کی ننگی پشتوں پر نقش و نگار بناتا رہا اسی طرح اس بار قانون کا کوڑا صرف اور صرف شریف خاندان والوں پر ہی برستا ہوا نظر آیا۔کرپشن پر سزا کا حقدار صرف شریف خاندان ہی ٹھہرا باقی سب جان کر امان پاتے نظر آئے ۔ بے شک کرپٹ افراد کو نشان عبرت بنانا قانون کا حق ہے۔ جو بھی شخص یا ادارہ کرپشن میں ملوث ہو اسے سزا دینا ضرروی ہے۔ مال کرپشن قومی خزانے کی لوٹ مار۔ رشوت کمیشن کسی صورت قابل معافی نہیں ۔ اس وقت عدلیہ نے کرپشن کے خلاف کارروائی کرکے ایسی فضا پیدا کر دی کہ عوام الناس عمران خان کے کرپشن کے خلاف نعرے کو حقیقت سمجھ بیٹھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھوکی ننگی غربت کی ماری عوام بھی تحریک انصاف کی حمایت میں نکلے اور اشرافیہ کے پیچھے چل پڑے۔ یہ بھول کر کہ یہ اشرافیہ حقیقت میں کوئی اشرافیہ نہیں یہ تو وہ لوگ ہیں جوقیام پاکستان کے بعد لوٹ مار کے ذریعے ہی اپنی اصلیت چھپا کر ذات قومیت بدل کر حلقہ اشرافیہ میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ اشرافیہ غریبوں ، مزدوروں ، کسانوں اور ہاریوں کا لہو چوس چوس کر ہی ان ستر برسوں میں تاج و تخت کے وارث بنے ہیں۔ یہ جو سرخی ان سرمایہ داروں جاگیر داروں صنعت کاروں کے چہروں پر نظر آتی ہے یہ سب ان کے زیر دست غریب لوگوں کے لہو کا اثر ہے۔ 2018کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ اور مقتدرہ اداروں نے انہی اشرافیہ کے ساتھ مل کر کرپشن کے خلاف نعرے کو تقویت دی ۔ حالانکہ کرپشن میں سب سے زیادہ ملوث یہی لوگ اور ادارے میں عوام بے چارے تو چند سو یا ہزار سے زیادہ کی کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پر بھی وہ پکڑے جاتے ہیں سزا پاتے ہیں ۔ جبکہ یہ اشرافیہ اربوں روپے کے قرضے تک معاف کر اکے کرپشن سے اربوں روپے کما کر بھی پاک و صاف رہتے ہیں۔ انہوں نے نہایت اطمینان سے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگالیا۔ وہ لوگ جو خود سرتاپا کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں عوام کو کرپشن کے خلاف صف آرا کرکے تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ الیکشن کے بعد ایک بار پھر آزاد امیدواروں اور چھوٹی جماعتوں کو دل کھول کر خریدا جا رہا ہے۔ تجوریوں کے منہ کھول دئیے گئے ہیں ۔ منہ مانگی قیمت پر حکومت سازی کی گنتی پوری کی جا رہی ہے۔ مری کے کوہساروں ، بریف کیسوں اور چھانگا مانگا کی کہانیوں والی سیاست پھر عروج پرہے۔ بنی گالہ آزاد امیدواروں اور چھوٹی جماعتوں کے لئے شہد کا چھتہ بن چکا ہے۔ طیارے اڑان بھر رہے ہیں ۔ شاعر مزاحمت جون ایلیا نے کیا خوب کہا تھا۔
جسم و جاں کو تو بیچ ڈالاہے
اب مجھے بیچنی ہے لاش اپنی
ہماری سیاست میں جو لوگ کرپشن گراوٹ کے خلاف شور اٹھا رہے تھے آج وہ خود انہی کاموں میں ملوث نظر آ رہے ہیں۔ کیا سیاست کو ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے دعوے کرنے والے افراد اور اداروں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ کیا قانون کا تازیانہ صرف ایک محدود طبقہ کے لئے مخصوص کر دیاہے عام آدمی یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے محسوس کر رہا ہے ، سمجھ رہا ہے تو خواص کا طبقہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، قانون پر عملدر آمد کرانے والے افراد اور اداروں کو کیا یہ سب کچھ نظر نہیں آ رہا اگر آ رہا ہے تو ایکشن کیوں نہیں لیا جا رہا ۔ اس کو روکا کیوں نہیں جا رہا کیا یہ روکنا آپ کی ذمہ داری نہیں ،اگر نہیں تو پھر کس کی ہے۔کیا یہ ادارے کسی خاص ایجنڈے کے تحت ایسا کر رہے ہیں۔ یا کسی فرد اور جماعت کو رعایت دینا مقصود ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا یہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی نہیں ۔ اس کی طرف سے آنکھیں بند کرنا اسے تحفظ دینے کے مترادف نہیں۔کیا یہ سب قانون اور انصاف کے ساتھ بھیانک مذاق نہیں ۔ قانون سب کے لئے یکساں ہونا ضروری ہے ورنہ وہی پرانی بات کہ کفر کامعاشرہ تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا معاشرہ برباد ہوتا ہے تعلیمی ادارے اور عدالتیں جب تک سلامت رہتی ہیں درست کام کرتی ہیں معاشرہ اور ملک زوال سے محفوظ رہتا ہے مگر اب توعدالتوں نے بھی ڈیمز کے ساتھ تعلیمی اداروں کے سر سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور کہہ رہی ہیں کہ ان کی تعمیر عدالتوں کا کام نہیں پہلے تو الزام لگایا گیا کہ وہ بھارت سے دوستی کی وجہ سے ڈیمز نہیں بنا ہرہے تو اب بنانے والے کیوں دست کش ہو رہے ہیں تو حضور! پھر جو کام جس نے کرنا ہے اسے کرنے دیں پھر ادارے کو پابند کریں کہ وہ اپنے اپنے کام نمٹائے ، ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھینچیں ۔ عدالتیں اگر صرف چیک اور بیلنس ہی رکھیں تو بہت سے ادارے درست ہو جائیں گے۔ کرپشن ہر جگہ ہے سیاست میں بھی بہت ہے مگر برا نہ مانیں جان کی امان پائیں تو عرض کریں کہ خود قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے کرپشن کی فہرست میں ٹاپ آف دی لسٹ ہیں ۔ اگر پہلے یہاں جھاڑو پھیری جائے کرپشن کا خاتمہ کر دیا جائے تو پورے ملک میں انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ کوئی خلاف قانون کام نہیں کر سکے گا۔ ہر مظلوم ظالم کا گریبان پکڑ کر اسے گھسیٹے گا۔ورنہ یہ سب شور شراباصرف....
مزاج یار میں رنگوں کا اختلاف تو دیکھ
سفید جھوٹ ہے ظالم کے سرخ ہونٹوں پر
والی بات ہی ثابت ہوگا ........

ای پیپر دی نیشن