خطرہ ہے اب کابینہ اجلاسوں میں بھی لڑائیاں ہونگی : احمد محمود

Aug 02, 2018

لاہور (خبر نگار) پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر اور سابق گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود نے کہا ہے کہ ہم نے اب پاکستان کا سوچنا ہے۔ عمران خان کو پانچ سالہ مدت پوری کرنے دینی ہے، میری دعا ہے کہ عمران خان 5 سال تک کا اپنا دور حکومت مکمل کریں، بلاول سے کہوں گا کہ وہ اس کام میں ان کا ساتھ دیں، اپنا مثبت کردار ادا کریں کیونکہ یہ ملکی مفاد کیلئے ضروری ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا منتخب ہوکر قومی اسمبلی پہنچ جانا قومی سیاست اور جمہوریت کیلئے خوش آئند ہے۔ عمران خان کو چاہئے بلاول کو سٹینڈنگ کمیٹی برائے امور خارجہ کا چیئرمین بنا دیں کیونکہ بلاول بھی پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے اس پوزیشن پر سب سے بہتر کام کرے گا۔ وہ اپنی رہائش گاہ پر اخبار نویسوں سے خصوصی ملاقات میں ملکی سیاسی حالات پر گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اب مزید قرضے لینے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے اگر ہمارا روپیہ مزید گرا تو سنبھلنا مشکل ہوگا ہمارا ملک جہاں پہنچ چکا ہے اب اس سے نیچے نہیں جاسکتا۔ پیپلز پارٹی کے بنائے ڈیزائن آف پالیٹکس نے پاکستان کو بچایا ہوا ہے۔ انہوں نے شاہ مخدوم قریشی کے تحریک انصاف میں کسی اہم کردار کے سونپے جانے کے سوال پر کہا کہ وہ وہاں مس فٹ ہیں، وہ پی پی سے وہاں گئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف میں ایسے ہی ہیں جسے برائلر مرغیوں میں دیسی مرغی۔ انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کو دیر ہو گئی ان کے ہاتھ میں CM کی لکیر نہیں ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے پہلے امتحان کے بارے کہا کہ قومی اسمبلی میں سپیکر کا چنا¶ بیحد اہمیت کا حامل ہے، سپیکر کا چنا¶ خفیہ ووٹ سے ہوتا ہے اگر اپوزیشن نے مشترکہ امیدوار دیا اور اس کیلئے سید خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، نوید قمر جسے قابل سیاستدانوں کا انتخاب کیا جن کا اپنا حلقہ بہت وسیع ہے تو تحریک انصاف کیلئے اپنا امیدوار جتوانا مشکل ہوگا۔ اس سوال پر کہ کیا یاسمین راشد پنجاب جیسے مشکل صوبے کو چلا پائیں گی، مخدوم احمد محمود نے کہا کہ بندہ ایماندار ہونا چاہئے، صوبہ چلانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ انہوں کہا کہ اب دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب صوبے کا قیام کب عمل میں لاتی ہے۔ البتہ پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کو چاہئے بجٹ میں فوری طور پر PFC (صوبائی فنانس کمشن) ضرور بنائیں تاکہ ہر ضلع کو اس کے حدود، رقبہ اورآبادی کے مطابق بجٹ میں حصہ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ نیا صوبہ بنانے کیلئے پہلے پنجاب اسمبلی پھر قومی اسمبلی اور سینٹ سے دو تہائی اکثریت کا فیصلہ لینا ہوگا، پیپلز پارٹی کے پاس صرف 6 نشستیں ہیں لیکن ہم اس کیلئے شور مچائیں گے، جنوبی پنجاب صوبے کی آواز سب سے پہلے میں نے 2008ءمیں بلند کی تھی اگر اب مسلم لیگ (ن) نے اس کی مخالفت کی تو سب کو پتہ چل جائے گا کہ مخالفت کون کر رہا ہے۔ جہانگیر ترین کے آزاد ارکان کو تحریک انصاف میں شامل کرانے کی جدوجہد اور کاوشوں کے بعد ان کے اپنے مستقبل کے حوالے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ انسان کا نصیب صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے، جہانگیر ترین کے پاس اب اپیل کا نہیں سپریم کورٹ میں ”ریویو“ کا حق ہے جس میں فیصلہ بدلا نہیں جاتا، یہ سب نصیب کی بات ہے۔ انہوں نے جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کے ضمنی الیکشن میں شکست اور پھر 2018ءکے انتخابات میں الیکشن نہ لڑنے کے بارے سوال پر کہا کہ سمجھ نہیں آتا کہ جہانگیر ترین نے اپنی لگائی آگ میں علی ترین کو کیوں جھونکا، دو ماہ بعد وہ قومی انتخابات میں حصہ لے سکتا تھا مگر اس کی سیاست کو شروع ہونے سے پہلے ہی مشکلات کا شکار کر دیا گیا۔ انتخابات میں حصہ نہ لینے کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ 33 سال عملی سیاست میں حصہ لے چکے اب ان کے بیٹے الیکشن لڑتے ہیں، میری چوتھی نسل قومی اسمبلی میں پہنچ چکی ہے پہلے ان کے دادا، والد وہ خود اور اب ان کے دونوں بیٹے قومی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا وقت بھرپور انداز میں گزارا ہے اب بچوں کا وقت ہے انہیں حصہ لینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت رہنے کے بعد آصف زرداری کو اسمبلی میں اب نہیں جانا چاہئے تھا وہ بطور صدر مملکت اسی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا کرتے تھے۔ فاروق احمد خان لغاری نے بھی یہی غلطی کی تھی کہ صدر بننے کے بعد اسمبلی کے ممبر بن گئے تھے۔ سندھ میں جی ڈی اے کی ناکامی کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ پیر صاحب پگاڑا نے علاقائی اور صوبائی نیشنلسٹ جماعتوں کو ملانے کی غلطی کی تھی جس کا یہ نتیجہ نکلا سندھ میں نیشنلسٹ جماعتوں کو عوام پسند نہیں کرتے بہتر تھا کہ پیر صاحب پگاڑا فنکشنل لیگ کے ٹکٹ پر امیدوار کھڑے کرتے۔ جی ایم سید کے بیٹے، پلیجو کے بیٹے اور پاکستان کو گالیاں نکالنے والوں کو سندھ میں ووٹ نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے اہم عہدے پر ہونیوالی تعیناتی سے عمران خان کی مستقبل کی پالیسی کا صحیح علم ہو سکے گا۔ میں بھی اس عہدے پر تعیناتی کے انتظار میں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں خطرہ ہے کہ اب کابینہ کے اجلاسوں میں بھی لڑائیاں ہوں گی۔ اسمبلیوں میں تو جھگڑے دیکھے اب کابینہ میں یہ منظر نظر آنے کا خدشہ ہے۔
احمد محمود

مزیدخبریں