میں صرف ایک بار وزیر اعظم ہاﺅس گیا تھا۔ اللہ گواہ ہے کہ مجھے بھی معلوم نہ تھا کہ کون وزیراعظم ہے۔ عمارات تک پہنچتے پہنچتے خاصا وقت لگا تھا۔ میں حیران ہوں کہ یہ ایک فیملی کے رہنے کے لئے تو نہیں۔ یہ تو کوئی شہر ہے جہاں بہت سے لوگوں کو رہنا چاہئے۔ لوگوں کے کسی استعمال کے لئے بھی سوچا جا سکتا ہے۔ کوئی یونیورسٹی بن جائے۔ اس طرح کی کوئی اور بلڈنگ....میں گورنر ہاﺅس لاہور تو بہت گیا ہوں۔ اتنا وسیع و عریض علاقہ کس کام کے لئے ہے۔ یہاں تو سینکڑوں لوگ رہ سکتے ہیں۔ موجودہ گورنر رجوانہ صاحب یہاں رہتے ہیں۔ وہ سادہ آدمی ہیں، نجانے کیسے رہتے ہیں یہ تو محلات ہیں۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ میں وزیراعظم ہاﺅس نہیں رہوں گا۔ منسٹر کالونی میں اپنی رہائش رکھوں گا۔ مجھے تو اس کے نام پر بھی اعتراض ہے۔ صدر ممنون کے لئے میرے دل میں قدر ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ ایوان صدر چھوڑ دیں اور کسی سادہ سے گھر میں رہیں۔ اگلا صدر تو کسی سادہ گھر میں ہی رہے گا۔ کتنی اچھی اور بامعنی بات ہے کہ صدر ممنون کی موجودگی میں ایوان صدر کا نام عمران خان نے نہیں لیا۔
٭٭٭٭٭٭
میرے خیال میں بھارتی وزیر اعظم مودی کو عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں نہ بلایا جائے۔ عجیب بات ہے کہ جب نواز شریف کو بلایا گیا اور وہ گئے تو انہیں بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں ”مودی کا یار “ کا طعنہ دیا گیا۔ اب مودی کو بلایا گیا تو تنقید کا سامنا عمران خان کو کرنا پڑے گا۔ اب تو شاید زیادہ بُرا منایا جائے گا۔ بھارت کی طرف سے بھی عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے تو پھر یہ بات بہت شرمناک ہو گی۔ عمران خان احتیاط کرے۔
٭٭٭٭٭٭
وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے علیم خان، ڈاکٹر یاسمین راشد، اور فواد چودھری کے نام زیرگردش ہیں۔ اس کے ساتھ بڑی خوش آئند بات یہ ہے کہ ایک دوسری جماعت ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کا نام بھی لیا جا رہا ہے....وہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہے ہیں اور انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ اس سے نواز شریف کو تکلیف ہو گی کہ وہ پچھلے دور میں جدہ جا کے کہتے تھے کہ چودھری پرویز الٰہی ہماری اجازت کے بغیر کیوں اور کیسے وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے؟ جدہ میں بھی ان کو وزیراعظم سے زیادہ سہولتیں حاصل تھیں۔ وہ اب کیوں نہیں سعودی عرب چلے جاتے؟ اب بھی لوگ سوچیں گے مگر میرے خیال میں وہ موجودہ منتخب سیاستدانوں میں بہترین چوائس ہیں۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ پنجاب میں بھی تحریک انصاف ہی حکومت بنائے گی۔ سیاسی لوگ شہباز شریف سے بھی ڈرے ہوئے ہیں۔ بہرحال وہ نواز شریف سے بہتر ہیں۔ ان کا مقابلہ بھی اپنے بھائی سے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بھی چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کی پیشکش کی ہے۔ شریف برادران اور چودھری برادران سیاست اور حکومت میں ایک منفرد مثال ہے۔ اب نوازشریف نہیں ہیں، شہبازشریف کو پتہ چل رہا ہے۔
رہ گئی دھاندلی کی بات تو کیا مولانا فضل الرحمٰن پچھلے دور میں دھاندلی سے جیتے تھے۔ سب سیاستدان ایک دوسرے کو کرپٹ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سب کرپٹ ہیں اور اب جو پیپلزپارٹی کے لوگ جیتے ہیں اور ن لیگ کے بھی لوگ جیتے ہیں تو کیا انہوں نے دھاندلی کی ہے۔ یہاں الیکشن کمشن کا زور کیوں نہ چلا۔
بلاول بھٹو زرداری کا جیتنا اچھی بات ہے۔ وہ نوجوان ہیں۔ کچھ نہ کچھ حزب اختلاف میں بھی اپنی موجودگی کا ثبوت دیں گے۔ لگتا ہے انہیں سابق صدر زرداری کی حمایت حاصل رہے گی اور یہ بڑی بات ہے۔ زرداری صاحب بلاول کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں پانچ سال کا وقفہ ہے۔ اگر عمران خان نے کچھ کر دکھایا تو کیا بنے گا۔ سابق صدر زرداری نے کچھ سوچ رکھا ہوگا۔ قانون بنایا جائے کہ دھاندلی کے الزامات کا شور مچانے والے دوبارہ الیکشن میں بھی ہار جائیں تو انہیں نااہل کر دیا جائے۔
عمران خان شاید ایسے آدمی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیں جو سب کو حیران کر دے۔ پرویز خٹک کے لئے بھی لوگ حیران رہ گئے تھے۔ اس نے کچھ نہ کچھ کارکردگی دکھائی ہے ورنہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ کوئی حکومت کرے اور دوسری بار آسانی سے جیت جائے۔ ایک بات کی مجھے بہت خوشی ہوئی اور کالم کے آخر میں اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ عمران خان نے پچھلے الیکشن میں میانوالی کی نشست چھوڑ دی تھی۔ مجھے دکھ ہوا کوئی لیڈر اپنی آبائی سیٹ نہیں چھوڑتا۔ یہی تو پہچان ہوتی ہے۔ اس سے پہلے انہیں اپنی ہی سیٹ ملی تھی اور یہی ایک سیٹ اس کے پاس تھی۔ یہ میانوالی کی سیٹ تھی۔ اس نے کبھی اس سے پہلے میانوالی کی سیٹ نہیں چھوڑی تھی ہمیشہ بہت لوگوں نے اسے میانوالی والی کی پہچان دی۔ اب وہ پاکستان کی پہچان ہے وہ بلاشبہ عالمی شخصیت ہے۔ اس نے وہاں نمل یونیورسٹی بنوا دی جس کی ڈگری سٹوڈنٹس کو بریڈ فورڈ انگلستان سے ملتی ہے۔ اس نے اب میانوالی کی سیٹ اپنے پاس رکھی ہے۔ یہ میانوالی کی عزت افزائی ہے۔ اب میانوالی کو وہ بہت عزت دلوائے گا۔ میانوالی کی دوسری سیٹ بھی تحریک انصاف کے پاس ہے۔ امجد خان کو مبارک ہو۔
٭٭٭٭٭