بآلاخر خر عمران خان اپنی طویل سیا سی جدوجہد او ر عوام کی بھر پور حمایت سے پاکستان کے وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچ ہی گے،کامیابی پر عمران خان نے اپنی پہلی مختصر لیکن جامع تقریر میں اپنی آنے والی حکومت کی جانب سے خارجی اور داخلی پالیسی کے حوالے سے چند اہم نکات پر وضاحت پیش کی، جسے اندرونی حلقوں اور بیرونی ممالک، خاص کر پڑ وسی ممالک میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ، کامیابی پر بیرونی ممالک کی جانب سے مبارکباد کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ، لیکن حلف اٹھانے کا کٹھن مرحلہ ابھی باقی ہے، عمران کے مخالفین نے حوصلہ ہاتھ سے، اور ایک دوسرئے کے ساتھ سے نہیں چھوڑا اورتشویش میں مبتلا ہیںکہ یہ ہوا کیا، ملک میں انتخابات کامیاب کیوں اور کیسے ہو گئے ؟ ہم کیوں اور کیسے ہار گئے ۔ افسوس کہ اس تشویش میں صرف عمران کے سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ بعض نام نہاد ، تجزیہ کار، تبصرہ نگار بھی شامل رہے ہیں خصوصی طور پر انتخابات کے روز 25 جولائی کی صبح جب لوگ پولنگ اسٹیشنوں میں جا کر اپنی پسند کے رہنما کا انتخاب کر رہے تھے، یہ حضرات تب بھی امید کا دامن ہاتھوں میں تھامے، چائے، کیک بسکٹ، کا ناشتہ کرتے عمران کے خلاف مختلف، ٹی، وی چینلز پر اپنا اپنا مورچہ لگائے بیٹھے ، عوام کو گمراہ کرنے کے کام میں جتے ہوئے تھے، افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا جس کی وجہ سے ان معصوم لوگوں کے خوابوں پر پانی سا پھر گیا اور ووٹ کو عزت د و کا نعرہ پاکستان تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹوں تلے دب کر سسک کر رہ گیا، لیکن ابھی بھی ان سیاسی مخالفین نے ہار نہیں مانی، بہرحال ملک میںانتخابات کم و بیش عوام کی عین توقعات کے مطابق ہوئے جس کے لیئے ا لیکشن کمیشن آف پاکستان بشمول دیگر ادارئے مبارکباد کے مستحق ہیں، ہونے والے انتخابات میں ووٹرز کی دلچسپی قابل دید رہی ، ہم نے خود باقاعد ہ جا کر مختلف علاقوں کے چند پولنگ اسٹیشنوں کا نظارہ و مشاہدہ کیا عوام کے جم غفیر میں خواتین کی بڑ ی تعداد قابل ستائش رہی، اس لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ واقعی جمہوریت پسند لوگوں کی بڑی تعداد نے ہونے والے ان انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، خاص اور قابل ذ کر بات یہ رہی کہ ان انتخابات میںعرصہ دراز سے گھروں میں بیٹھا خاموش ووٹر بھی گھر سے باہر نکل آیا،غالباََ موجودہ ماحول میںوہ آس لگا بیٹھا ہے کہ اب کی بار ضرور اس کے ملک میںکچھ نہ کچھ تبدیلی آئے گی، اس کی توقع پر پورا اترنا منتخب ہونے والی حکومت کی کارکردگی پر منحصر ہے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی بڑی کامیابی نے بہت سے پرانے سیاست کے فنکاروں، اداکاروں، صد اکاروںکی نہ صرف چھٹی کروا دی انتخابات میں سیاسی دیوتا وں کو زمیں بوس ہوتے دیکھا گیا ، جس میں قابل ذ کر ناموں میں مولانافضل الرحمان، اسفندیار ولی، محمود خان اچکزئی شامل ہیں، خاص کر مولانا اپنی شکست پر ماہی بے آب کی طرح پھڑکیاں کھاتے نظر آ رہے ہیں، مولانا نے اپنی شکست پر بجائے اپنے حلقے کی عوام سے پوچھنے کے کہ آخر انہوں نے مولانا کو اپنے رہنما کے طور پر کیوں متخب نہیں کیا، حسب روایت شورغوغا کرتے ہوئے تمام پرانے ساتھیوں کو اکھٹا کر کے ، آل پارٹیز کانفرنس کے نام پر اپنی جوشیلی تقریر میں انتخابی نتائج کو سرئے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا، اور ساتھ ہی نئے سرئے سے ملک میں انتخابات کروانے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ، برطانیہ، یورپی یونین اور امریکا ، نے بھی کامیاب انتخابات کروانے اور عوام کی جانب سے جمہوری حکومت کو منتخب کرنے کیلئے بھرپور ووٹ ڈالے جانے پر عوام کے جذبے کو سراہا اور پاکستان کو مبارکباد دیتے ہوئے منتخب ہونے والی حکومت کے ساتھ چلنے کا عزم ظاہر کیا، اور اب وقت کے ساتھ ساتھ بھارت، ایران، چین اور دنیا کے د وسرئے ممالک کی جانب سے بھی کامیاب انتخابات کروانے پر پاکستان کو مبارکباد کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ افغانستان جو محمود اچکزئی کی جان ہے وہاںکے صدر اشرف غنی نے تو باقاعدہ فون کر کے نہ صرف عمران خان کو کامیابی کی مبارکباد دیتے ہوئے افغانستان کے نوجوانوں میں کپتان کی مقبولیت کا ذکر کیا بلکہ دو قدم آگے جاتے ہوئے افغانستان کے دورئے کی ابھی سے دعوت تک دے ڈالی گویا اشرف غنی نے عمران خان کو ابھی سے بطور وزیر اعظم پاکستان تسلیم بھی کر لیا ہے، جس سے انتخابات کے نتائج کی مخالفت کرنے والوں کو سمجھ آجانی چاہئیے کہ دنیا نے بشمول آس پڑوس کے ممالک سب ہی نے انتخابات کے نتائج کو شفاف تسلیم کر لیا ہے،