راولپنڈی( سلطان سکندر) راولپنڈی شہر اور کینٹ میں حالیہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی ناکامی میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی کارفرما تھا جس میں ممتاز قادری فیکٹر‘ ختم نبوت کے حلف نامے کی تبدیلی‘ مودی سے دوستی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ایشوز شامل تھے جنہیں ان مذہبی جماعتوں کی طرف سے حالیہ انتخابی مہم کے دوران اٹھایا گیا۔ گزشتہ تین عشروں سے مذہبی طبقے کے ووٹ بینک کا بڑا حصہ مسلم لیگ ن کی طرف جاتا رہا ہے مگر اس بار مذہبی جماعتیں مندرجہ بالا عوامل کی وجہ سے مسلم لیگ ن سے الگ تھلگ رہیں جبکہ خود مسلم لیگ ن بھی اپنے انسلامسٹ کی بجائے لبرل اور ڈیموکریٹک پوسچر کو نمایاں کرنے کے لیے الیکشن میں مذہبی جماعتوں سے فاصلے پر رہی‘ اگرچہ میاں نوازشریف کی وزارت عظمی سے علیحدگی کے بعد ان کے داماد نے دوبار اٹھال شریف بہارہ کہو میں غازی ممتاز حسین قادری شہید کے مزار پر حاضری دی اور راولپنڈی میں حالیہ گرفتاری سے پہلے خطاب کے علاوہ راجہ محمد حنیف کے یوتھ کنونشن میں ممتاز قادری کے حوالے سے بڑا جذباتی خطاب کیا لیکن لیاقت باغ کے انتخابی جلسوں میں سینیٹر سراج الحق اور علامہ حافظ خادم حسین رضوی نے بڑے زور دار انداز میں ممتاز قادری کا ذکرکیا پی پی 17 سے ایم ایم اے کے الیکٹ ایبل امیدوار رضا احمد شاہ اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کے امیدوار خاص طور پر انتخابی جلسوں میں ممتاز قادری کی شہادت جذباتی انداز میں اجاگر کرتے رہے تحریک لبیک پہلی بار الیکشن میں حصہ لینے کے باوجود ووٹ بینک کے اعتبار سے دیگر مذہبی جماعتوں پر سبقت لے گئی۔ ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ اللہ اکبر تحریک نے پہلی بار شہر اور کینٹ میں قومی اسمبلی کا ایک اور چار صوبائی امیدوار کھڑے کئے تھے جنہوں نے مجموعی طورپر 5ہزار ووٹ حاصل کئے جبکہ ملی مسلم لیگ نے این اے 62 میں عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد کی حمایت کی پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے الیکشن کے ملک گیر بائیکاٹ کے بعد پی پی 18 سے واحد امیدوار غلام علی خان نے شیخ رشید احمد اور عوامی تحریک نے شہر اور کینٹ کی نشستوں پر عوامی مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا اندریں حالات مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی ناکامی میں دیگر عوامل کے ساتھ مذہبی ووٹ سے محرومی بھی شامل تھی۔