حاصل سے لاحاصل تک کا سفر اور ذکر فیض!!!!!!

ہم نے گزشتہ روز کہا تھا کہ سینیٹ میں ہونے والی رائے شماری کا نتیجہ کچھ بھی ہو یہ جمہوریت کی ناکامی ہو گی۔ ہم آج بھی اس فلسفے اور نظریے پر قائم ہیں کہ یہ کسی جماعت کی ناکامی یا کامیابی کے بجائے جمہوریت کی ناکامی ہے۔ وہ جمہوریت جس کا راگ الاپا جاتا ہے۔ وہ جمہوریت جس کی برکات عوام کو سنائی جاتی ہیں، وہ جمہوریت جس سے فوائد صرف حکمران طبقہ ہی اٹھاتا ہے، وہ جمہوریت جو عوام سے بہترین انتقام لیتی ہے، وہ جمہوریت جہاں صرف سرمایہ داروں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، وہ جمہوریت جہاں صرف تین فیصد ترقی کرتے ہیں، وہ جمہوریت جہاں عوام کے نمائندے ڈیسک بجانے تک پورے نظر آتے ہیں لیکن ووٹنگ کے وقت بدل جاتے ہیں، وہ جمہوریت جہاں کوئی نظریہ کوئی اصول، کوئی قانون، کوئی ضابطہ، کوئی قاعدہ، کوئی روایت اور کسی وعدے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ اس جمہوریت میں ایک ہی نظریہ فروغ پاتا ہے اور وہ نظریہ اقتدار کا ہے، وہ نظریہ حکمرانی کا ہے، وہ نظریہ عوامی خواہشات کے قتل عام کا ہے وہ نظریہ لوٹ مار اور کرپشن کا ہے، وہ نظریہ قرضوں کا ہے، وہ نظریہ بیرون ملک کاروبار کا ہے، وہ نظریہ عوام کو دبا کر رکھنے کا ہے، وہ نظریہ عوام کے حقوق غصب کرنے اور انہیں حقائق سے دور رکھنے کا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اسی نظریے کی بقاء کے لئے لگ بھگ بارہ ہفتوں سے اس تحریک کی تیاری کر رہی تھیں۔ اس اہم مشکل اور سخت وقت میں تمام اہم معاملات اور موضوعات کو نظر انداز کر کے اپوزیشن نے ساری توانائیاں صرف اور صرف سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد پر لگا دیں اور نتیجہ نکلا ہے جمہوریت کی ناکامی کی صورت میں، ڈیسک بجانے تک اپوزیشن کو مطلوبہ اراکین سے زیادہ کی حمایت حاصل تھی لیکن رائے شماری میں وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ یہی ہے جمہوریت کی ناکامی، یہی ہے اپوزیشن کی مفادات کی سیاست کی ناکامی، یہ ہے ان کے جھوٹے بیانیے کی ناکامی، آج ان تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے جو برسوں بویا تھا وہ کاٹ لیا ہے۔ کرپشن میں ڈوبے بڑے سیاست دان، لوٹ مار کے جرم میں جیل قید سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے لیے سینیٹ میں ناکام ہونے والی تحریک عدم اعتماد بہت بڑا سبق ہے۔ اسے مکافات عمل کہا جاتا ہے۔ جیسے مختلف سیاسی جماعتوں کے اکابرین نے مفاد کی سیاست کو فروغ دیا آج انہوں نے وہ فصل کاٹ لی ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اپنے اراکین کی تربیت اصول، قانون، اخلاقیات، ایمانداری، صداقت اور نظریے کی بنیاد پر کی ہوتی تو کبھی ان کے اراکین نہ ٹوٹتے، اصولوں پر چلتے ہوئے انسان اکیلا بھی رہ جاتا ہے لیکن فتح اسی کی ہوتی ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہان نے جھوٹ، کرپشن، بے ایمانی، نظریہ ضرورت اور مفادات کی سیاست کو فروغ دیا یہی وجہ ہے خفیہ رائے شماری میں ان کے ساتھ وہی ہوا جو وہ ایک عرصے تک کرتے رہے ہیں۔ یہی جمہوریت کی ناکامی ہے۔ وہ منتخب اراکین جو اپنی جماعتوں سے دغا کر سکتے ہیں کیا ضمانت ہے کہ وہ قوم کو دھوکہ نہیں دیں گے، کیا ضمانت ہے کہ وہ ریاست کو دھوکہ نہیں دیں گے، کیا ضمانت ہے کہ وہ ملک کو نہیں بیچیں گے۔
قارئین کرام ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ اکیسویں صدی میں بھی سینیٹرز کے ووٹ مسترد ہو رہے ہیں، وہ جو ایوان بالا کے اراکین ہیں وہ ووٹ کاسٹ کرنا بھی نہیں جانتے دنیا چاند پر جا رہی بلکہ اس سے بھی آگے نکل رہی ہے، فائیو جی آ رہی ہے، روبوٹ ڈرائیور آ رہے ہیں، سمندر کے نیچے گذر گاہیں بن گئی ہیں، بچے ٹیب چلانے میں ماہر ہو گئے ہیں اور ہمارے قابل عزت سینیٹرز ووٹ کاسٹ کرنا بھی نہیں جانتے یہ ہے وہ انتقام جو جمہوریت لے رہی ہے۔ جنہوں نے قوم کی رہنمائی کرنی ہے انہیں خود تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہے، جنہوں نے قانون سازی کرنی ہے وہ ووٹ کاسٹ کرنے کی بنیادی چیزوں سے لاعلم ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ کوئی توڑ کر لے گیا، کسی نے دباؤ ڈال دیا، کسی نے مجبور کر دیا، کسی نے ڈرا دیا کوئی دھمکاتا رہا ہے، وہ جو ظہرانے اور عشائیے کھاتے رہے انہیں ڈرانے دھمکانے کی ضرورت کیوں پیش آنی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے جمہوری نظام کے لیے، اس کے علمبرداروں کے لیے اور اپنے جھوٹے بیانیے اور نظریہ ضرورت کے تحت معصوم عوام کو استعمال کرنے والوں کے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔
اب آئیں حاصل بزنجو پر، ہم ذاتی طور پر نہیں جانتے ہیں، طرز سیاست بھی جانتے ہیں اور سیاسی قلابازیوں سے بھی بخوبی واقف ہیں، بلوچستان ہمارے دل کے بہت قریب ہے۔ سیاست دانوں میں میر ظفر اللہ خان جمالی کی وجہ سے ہم نے وہاں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے بارے بات کرتے ہوئے بھی نہایت محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ حاصل بزنجو کی اپنے سیاسی کیریئر میں بلوچستان کے لئے کیا خدمات ہیں اگر ان کے کریڈٹ پر ایک بھی کامیابی ماسوائے ذاتی فوائد کے ہے تو وہ لکھ بھیجیں ہم اسے تفصیل کے ساتھ شائع کریں گے۔ انہوں نے فیض صاحب کا نام لیا ہے ہمیں فیض صاحب سے بھی بہت محبت ہے اور وہ فیض احمد سے شروع ہو کر اس فیض تک پہنچتی ہے جس کا ذکر حاصل بزنجو نے ہارنے کے بعد کیا ہے۔ ایسے بیانات سے نا صرف وہ جمہوری اقدار کو داغدار کر رہے ہیں بلکہ ان کی سوچ بھی آگے بڑھا رہے ہیں جنہوں نے انہیں امیدوار مقرر کیا تھا۔ حاصل بزنجو کی حیثیت کسی ناکام سیاست دان سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے ریاست کے اہم ترین ادارے کے انتہائی ذمہ دار فرد کو متنازع بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ان کے اس موقف نے کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ کاش حاصل بزنجو کا ضمیر اس وقت جاگتا جب وہ سیاسی قلابازیوں میں مصروف رہے، کاش یہ ضمیر اس وقت جاگے جب وہ بلوچستان کی کمزور حالت کو دیکھیں، کاش ان کا ضمیر اس وقت جاگے جب وہ مراعات کے لیے اصولوں کا سودا کر جائیں لیکن ان کا ضمیر بھی ان کروڑوں مردہ ضمیروں میں شامل ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دھوکہ دے کر، جھوٹ بول کر، وقتی فائدہ حاصل کر کے، جھوٹے وعدے کر کے، زبانی جمع خرچ کر کے، آئین و قانون کی خلاف ورزی کر کے پاکستان کو بدلا جا سکتا ہے۔ ان تمام مردہ ضمیروں کے لیے سینیٹ کا الیکشن ایک پیغام ہے اپنے نمائندوں کو چننے سے پہلے ان کا ماضی ضرور دیکھیں اگر وہ اخلاقی طور پر کمزور ہیں تو انہیں گھروں تک محدود کر دیں جب تک کمزور اخلاقی قدروں کے حامل افراد جوانوں میں آتے رہیں گے دھوکے ہوتے رہیں گے، قرضے چڑھتے رہیں، قومی راز بیچے جاتے رہیں گے، ملکی سلامتی کو خطرات لاحق رہیں گے، ملک کا مستقبل داؤ پر لگا رہے گا۔ بدلنا ہے تو اس سوچ کو بدلیں، بدلنا ہے تو اس نظریے کو بدلیں، بدلنا ہے تو فکر کو بدلیں جو ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے قومی مفادات پر سمجھوتا کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا تو کوئی نظام حکومت اور کوئی بھی حکمران کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ای پیپر دی نیشن