کابل (نوائے وقت رپورٹ +آئی این پی+ انٹرنیشنل ڈیسک) افغانستان کے تین بڑے شہروں میں طالبان کے حملے جاری ہیں اور طالبان افغانستان کے تین بڑے شہر ہرات، لشکر گاہ اور قندھار میں داخل ہو چکے ہیں۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق افغان رکن پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ طالبان کے حملوں سے ہزاروں افغان بے گھر ہو چکے ہیں اور قندھار میں گزشتہ 20 سال کی بدترین لڑائی جاری ہے۔ افغان شہر قندھار کے ائیرپورٹ پر طالبان نے 3 راکٹ حملے کئے ہیں، ان میں سے 2 رن وے پر گرے، جس کے بعد فلائٹ آپریشن معطل کر دیا گیا ۔ حملوں کے باعث خوف وہراس پھیل گیا، تاہم فوری طور پر کسی جانی و مالی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں۔ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان فضائیہ قندھار ایئرپورٹ سے پرواز بھر کر فضائی حملے کر رہی تھی جس کے جواب میں ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا۔طالبان نے کمانڈر اسماعیل خان کے محل اور لوگر کے ضلع کنجک کا کنٹرول بھی سنبھال لیا،امریکی فضائیہ نے ہلمند میں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔طالبان کے دعویٰ کیا بھارتی طیارے استعمال ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب صوبے ہرات میں طالبان نے اکثریتی علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ جس کے بعد افغان فوج کے مزید تازہ دم دستے صوبے کی جانب روانہ کیے گئے ہیں جہاں طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے تاہم اسی دوران طالبان نے اہم سرحدوں اور 95 فیصد علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ادھر افغان صدر اشرف غنی نے کابینہ کے پہلے ڈیجیٹل اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال اگلے 6 ماہ میں تبدیل ہوجائے گی۔ طالبان تبدیل نہیں ہوئے، وہ امن اور ملک کی ترقی نہیں چاہتے۔ افغان صدر نے تسلیم کیا کہ ملک کے کچھ حصوں میں عوام حکومت سے خوش نہیں۔ طالبان ہمارے لئے ماضی جیسا مستقبل بنانا چاہتے ہیں۔ عوام نے افغان سکیورٹی فورسز کیلئے اپنی حمایت دکھائی ہے۔ افغان امن عمل پر طالبان جھوٹ بول رہے ہیں۔ جب تک سکیورٹی صورتحال تبدیل نہ ہو طالبان امن عمل میں شامل نہیں ہوں گے۔