افغانستان میں اب بھی امن ممکن 

افغانستان میں منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خطے کا امن پُرامن افغانستان سے وابستہ ہے۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حصہ لے کر بھاری قیمت ادا کی۔ وزیر اعظم عمران خان کے بقول اس جنگ میں 80 ہزار پاکستانی مارے گئے اور ایک سو 28 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ افغانستان میں لڑی جا رہی تھی جس کی لپیٹ میں پاکستان بھی آ گیا۔ افغانستان میں لڑنے والی افواج کا اتنا جانی نقصان نہیں ہوا جتنا پاکستان کا ہوا حالانکہ پاکستان اس جنگ میں براہِ راست شریک نہیں تھا۔ پاکستان نے دہشتگردی سے نجات کے لئے بڑی قربانیاں دیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پاکستان سے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لئے افغانستان کا پر امن ہونا ضروری ہے۔ پاکستان نے اسی لئے امریکہ اور طالبان کو براہِ راست مذاکرات کرنے پر مائل کیا۔ ایک موقع پر یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے تک آمادہ نہیں تھے۔ پاکستان کی کوششوں سے امن معاہدہ ہوا جس سے افغانستان میں امن کی امید پیدا ہوئی مگر امریکہ کی طرف کچھ معاملات کو آسان لیا گیا۔ بلاشبہ امریکہ طالبان کو مکمل طور پر زیر نہیں کر سکا ۔ امریکہ فاتح ہوتا تو طالبان کے ساتھ اپنی شرائط پر مذاکرات اور امن معاہدہ کرتا۔ اسی طرح طالبان کو جتنا بھی طاقتور مان لیا جائے مگر وہ بھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ افغانستان کو تہہ بالا کر کے وہاں اقتدار پر قبضہ کر لیں۔ امریکہ یقینا اس پوزیشن میں تھا کہ افغانستان میں ایک سیاسی سیٹ اپ تشکیل دے دیتا مگر اس کی طرف ایسا نہیں کیا گیا۔ چنانچہ وہاں اب حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ اشرف غنی انتظامیہ اور طالبان ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اب امریکہ کے لئے حالات کو سنبھالنا ناممکن ہو رہا ہے۔ پاکستان نے افغان امن عمل کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ طالبان کی طرف سے اس کے باوجود کہ ان کے مقبوضات میں اضافہ اور وہ مضبوط ہو رہے ہیں ایک عبوری حکومت کے قیام کی تجویز آئی ہے۔ خونریزی سے بچنے کی یہ بہترین تجویز ہے۔ جو اشرف غنی حکومت کی طرف سے قابلِ قبول اس لئے نہیں ہو سکتی کہ وہ ہرصورت اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتی ہے۔ طالبان پر قابو نہ پانے کا غصہ وہ پاکستان پر نکال رہی ہے۔ افغان قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب اسی لیے پاکستان کے خلاف زہریلی زبان استعمال کر رہا ہے۔ افغان وزیر خارجہ امراللہ صالح بھی بے ڈھنگی اور بے تکی باتیں کر کے اپنے خبثِ باطن کااظہار کر رہا ہے۔ اس کے پاکستانی ائیر فورس پر لغو الزامات سامنے آ ئے ہیں کہ اس کی طرف سے افغانستان کو کہا گیا ہے کہ طالبان کے مقبوضات چھڑانے کوشش کی تو پاک فضائیہ جوابی کارروائی کرے گی۔ اُدھر صدر اشرف غنی نے کہہ دیا کہ پاکستان نے دس ہزار جنگجو افغانستان میں داخل کر دئیے ہیں۔ افغان حکومت کتنی کمزور ہو چکی ہے اس کا اندازہ اس کے فوجیوں کی طرف سے پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ لینے سے ہو سکتا ہے۔ 
پاکستان نے افغانستان میںتشدد کی بڑھتی ہوئی فضاء پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے متعددمواقع پر تشدد کی پالیسیوں کو ترک کرنے اور جنگ بندی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے صورتحال بہت خراب کردی۔انہوں نے افغان حکومت سے کہا ہے کہ دس ہزار جنگجو بھیجنے کے احمقانہ بیان کے ثبوت دے۔پاکستان نے افغان حکومت کی داخلی سلامتی ، امن و امان اور افغان انسانی جانوں کے تحفظ کے لئے فریقین کو اپنی ذمہ داری کے لئے بھر پور اقدامات کرنے کی ضرورت بھی پر زور دیا ہے۔ 
افغانستان میں اب بھی امن حاصل کیا جاسکتا ہے۔طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کرنے کی صلاحیت بھی کھو دی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کسی نہ کسی انداز میں پردے کے پیچھے رہنا چاہتاہے۔عالمی شہرت کے حامل دانشوروں اور نامور صحافیوں کی بھی یہی رائے ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی اور طالبان کوئی بھی طاقت کے بل پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکا شکست دینا تو بہت دور کی بات ہے۔ امریکی افواج کا انخلاء مکمل ہوچکا ہے۔ اب افغانستان میں جنگ بندی کو یقینی بناناکابل انتظامیہ اور طالبان دونوں کی یکساں ذمہ داری ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے درست نشاندہی کی ہے کہ افغان خانہ جنگی پاکستان میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔
 طالبان کو خاص طور خواتین کے بارے میں انسانی حقوق نظر انداز نہیں کرنا ہوں گے۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ طالبان نے اس حوالے سے اسلامی اور انسانی اقدار کو پائمال کیا۔ وہ 2001کے بعد سے افغان خواتین کو حاصل آزادیاں کسی طور پر بھی سلب نہیں کر سکتے۔ طالبان کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنے موقف پر اصرار کرنے کی بجائے بدلے ہوئے حالات میں عوامی تعلیم میں خواتین کی شمولیت ،روزگار کے حصول اور معاشرتی زندگی میں حصہ لینے پر نرمی پیدا کرنا ہو گی۔خواتین کے حقوق کی بحالی سے افغان عوام کو فائدہ ہوگا۔افغانستان جیسے بدعنوان ملک کے لئے جودنیا کے سرفہرست12ملکوں میں سے ہے خطرہ یہ ہے کہ منافع میں شیر کا حصہ بہت کم ہوجائے گا۔
 بدلی ہوئی صورت ِ حال میں کابل انتظامیہ کو بھی اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے کہ وہ امریکی اورنیٹو افواج کی بھر پور موجودگی کے باوجود کبھی بھی پورے ملک میں اپنی رٹ قائم نہیں کر سکی اور طالبان بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ20سال سے جاری پُر تشدد کا رروائیوں کے باوجودغلبہ حاصل نہیں کر سکے۔بدقسمتی سے فریقین کی اس غلط فہمی نے افغان عوام کو بھاری نقصان پہنچایا ۔ اسی سوچ کے باعث اقتصادی اور معاشی طور پر افغان معاشرہ ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔
فریقین امریکی فوج کے انخلا کو شکست و فتح کی اصطلاحات میں نہ دیکھیں ، بلکہ اسے افغانستان اور افغان عوام کی ترقی اور امن کے لئے سنہری موقع سمجھیں۔ وگرنہ کلی اقتدار کے لئے جنگ جاری رہی، تو نہ صرف افغانستان مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا بلکہ اس آگ کے شعلے پورے خطے میں امن و استحکام کو خاکستر بنادیں گے۔عالمی برادری کا بھی فرض ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا احساس کرے اور صورت حال کو دوبارہ خون ریزی میں نہ بدلنے دے۔واضح رہے کہ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کا امن افغانستان میں امن سے وابستہ ہے ۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے اس مقصد کیلئے گزشتہ تین سال میں جتنی جدوجہد کی ہے اُس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سے زیادہ افغانستان میں امن کا کوئی حریص نہیں۔

ای پیپر دی نیشن