باشعور افراد کے ذہنی وقلبی اور معاشرتی ہم آہنگی سے جو خیالات ابھرتے ہیں وہ تخلیقی اظہار کے پیرائے میں کسی نہ کسی انقلاب کا پیش خیمہ ضرور بنتے ہیں قوم کو بیدار کرنے، دلوںکو مسخر کرنے، دشمنوں کو زیرکرنے،حقوق کو محفوظ کرنے اور فرائض کو ادا کرنے کے حوالے سے ایک شاعر ادیب اہم کردار ادا کرتاہے۔ معاشرے کے مسائل اور اہم ترین معاملات کیلئے ماضی اور گزرنے والے وقت سے نتیجہ اخذ کرکے مستقبل کی پیش گوئی کرنے کیلئے ادیب اور صحافی سوشل میڈیا کے ذریعے واضح بیان، واضح کالم اور واضح تنیہہ منظر عام پہ لاتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں شخصیت سازی کے نکھارنے میں استاد پیش پیش ہوتے ہیں تحریری صلاحیتوں کو اجاگرکرنا نثر اور نظم دونوں کے جمالیاتی اور فکری ثمرات سے بہرہ ور کرنا بہت ضروری ہوتاہے، موضوع، خیال، ہیت، موزونیت، اور قدرت کا خاص خیال رکھنے کی صورتیں واضح کی جاتی ہیں۔
انسان جس دور کے حالات میں نشودنما پارہاہوتاہے انہی حالات کا عکس اس کے فکروعمل میں نظر آتاہے۔ اس عکس کو روشن اور واضح خدوخال رہنے کیلئے استاد اہم کردار ادا کرتاہے، لائبریری اور کتابیں بھی اسی اہم کردار کا حصہ ہوتی ہیں۔
ذوق کے رنگین آنگن سے حرف شناس آنکھیں رنگ، خوشبو، پیکر چن لیتی ہیں اور شوق کی راہداریوں پہ پھیلاتی، بکھیرتی اور نصب کرتی چلی جاتی ہیں۔ کتاب،رسالہ، اخبار، میرے نزدیک وہ ذوق کا رنگین آنگن ہے جو ہماری شخصیت کو کبھی بے رنگ نہیں ہونے دیتا، بدن کی تھکاوٹ جس طرح بستر پہ آرام کرنے سے دور ہوجاتی ہے روح اور من کی تھکاوٹ ایک کتاب کا مطالعہ کرنے اور رسالہ میں ادب کے مختلف صنف کے ذائقے چکھنے سے کافور ہوجاتی ہے۔
مگر کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو ادب جو رسائل وجرائد اور اخبارات کا معیار1960سے1980کی دہائیوں میں تھا آج بھی نظرآتاہے تویقیناً سب کہیںگے ’’نہیں‘‘
اب تو ادبی ذوق کی بارگاہ میں محبت وتربیت کے چراغ جلانا انتہائی مشکل ہوگیاہے، کیا کبھی ادب اور ادیب بھی اپنی موت مرتاہے تو یقیناً نہیں، اسے مارتے ہیں اس کے قارئین جس طرح محبت اور خلوص کے بنا کوئی رشتہ نہیں پنپ پاتا اسی طرح ادب کے شائق اور قاری کا جنون نہ رہے تو آہستہ آہستہ ادب بھی ناپید ہوجاتاہے اور ادیب بھی اکھڑی سانسیں لینے لگتاہے1970کے دھنک کے ایڈیٹر سرور سکھیرا سے گفتگو ہوئی۔
ان کا پہلا جملہ ہی دل چیر گیا، کہنے لگے کتاب مرچکی ہے، اب وہ معیاری رسالے نہیں چھپتے، جو چھپتے ہیں ان کو تحفے کے طورپر دیاجاتاہے کوئی قاری خریدتا نظر نہیں آتا۔ پہلے بڑے ادیبوں کے نام کے نمبر چھپا کرتے تھے وہ پوری ایک تاریخ ہوا کرتی تھی۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ مجھے احمدندیم قاسمی ، عصمت چغتائی، بانو قدسیہ، فراز، فیض احمد فیض،محسن اور دیگر شاعر وادیب کی موت کے ساتھ ادب بھی مرگیا، اب تو ایک دوڑ ہے ہر کوئی لکھنے کیلئے پرتولتانظرآتاہے مگر ادب تخلیق نہیں ہورہا۔وہ درد اورمایوسی بھرے لہجے میں کہنے لگے کہ ہماری اتنی بڑی دکان تھی فیروز سنز وہاں کلاسک ادب ملتاتھا، شخصیات آتی تھیں محفل ہوتی تھی بات بات پہ سیکھنے کے مواقع ملتے تھے ،سگریٹ چائے کتاب اور ادیبوں کی باتیں، وہ استاد لوگ تھے اب استاد کہاں نظرآتاہے، احسان دانش، ذوقی، اشفاق احمد،ناصر زیدی، شہزاد احمد یہ وہ استاد تھے جو کان پکڑ کے مرغا بھی بنالیتے تو شاگردکچھ نہ کچھ سیکھ کے جاتا تھا۔ مگر اب استاد اپنی ہی ذات کے ڈربے میں بند ہے۔ آج بھی بڑے نام جو چند رہ گئے ہیں انہوں نے کہاں اکیڈمی بنائی اور جبلت میں فنِ ادب لے کے پیدا ہونے والوں کو تلاش کرکے ان کے جوہر کو چمکایا۔ سرور سکھیرا کہنے لگے کہ مجھے اپنے گرد پھیلی کتابوں سے خوف آتاہے میں نے1400کتابیں مختلف لائبریریوں کو دی ہیں۔
جب ہمیں یہ سمجھ آجائے گی کہ تخلیقی لمس، معنی ومفہوم، حالات و واقعات گوشت اور روح کے ساتھ رشتہ استوار کرنا چاہتاہے تو ہمارے رسائل اور دیگر تخلیقی اصناف میں معنی اور تعلق لذت اور اخلاق کے دوجہات کا پَرتو روشن نظرآنے لگے گا۔کتابوںکو زندہ رکھنا اور ادب کو جاودانی بخشنے کیلئے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھوٹی سی ڈیوائس سے ہٹ کر بھی کچھ سوچنا پڑے گا ورنہ واقعی سرور سکھیرا کایہ جملہ کہ کتاب مرچکی ہے حقیقت کا لبادہ نہ اوڑھ لے۔ادب کی منڈیروں پہ حرف ومعانی کے چراغ جلائے رکھیے ہمارا معاشرہ اور نسلوںکی تربیت کبھی اندھیروں کا شکار نہیں ہوگی۔