ہردور میں کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو تاریخ کا رخ ہی نہیں بدلتے بلکہ دنیا کو تاریخ کا اسیر بھی بنا دیتے ہیں ۔ گزشتہ بیس سال کے واقعات نے بھی کچھ ایسی ہی شکل اختیار کر لی ہے ۔ نائن الیون سے پہلے دنیا پر ایک ہی قوت کا راج تھا اس کے بعد حالات بدستور تبدیل ہوتے گئے ۔ایک وقت آیا کہ دنیا میں اسلام ، جہاد ہی نہیں بلکہ مسلم دنیا کو سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔ مغربی ممالک میں مسلمان ہونا بذات خود جرم بنتا گیا ۔ اسلامو فوبیا کی لہر نے یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے صرف معاشی و رہائشی مسائل ہی پیدا نہیں کیے بلکہ براہ راست ان کے مذہبی عقائد کو ہدف بنایا جانے لگا جس سے بہرحال عالم اسلام نبٹنے میں ناکام نظر آرہا تھا تاہم جوں جوں افغانستان میں امریکی اہداف ناکام ہوتے چلے گئے توں توں یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف حملوں میں بھی تیزی آنے لگی ۔ یہ حملے محض جسمانی ہی نہیں تھے بلکہ فکری و مذہبی شعائر کے خلاف بھی تھے ۔ اظہار آزادی کے نام پیغمبر اسلام کے خلاف شائع ہونے والے کارٹون اور قرآن کریم کو جلانے کے ساتھ ساتھ دیگر اسلامی علامتوں مثلاً نقاب، مساجد ، اسلامک مراکز، مساجد مینار اور داڑھی سمیت ہر اس علامت پر پابندی لگانے یا تضحیک کرنے کی کوشش کی گئی جس کا تعلق کسی نہ کسی طرح اسلامی تعلیمات سے تھا ۔ مغرب میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے اس کا ردعمل بھی شدید ہوا اورکچھ نئے گروہوں نے جنم لینا شروع کیا ۔فکری رہنمائی نہ ہونے کے باعث ایسے گروہ شدت پسند ی کی طرف بڑھتے چلے گئے اور پھر دہشت گردی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے عالم اسلام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔سعودی عرب ،ایران ، پاکستان ، ترکی سمیت اکثر ممالک میں اس دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ تحریکیں چلیں اور جہاں ان مختلف قسم کی تحریکوں میں رکاوٹ آئی وہیں اس کا رخ اپنے ہی لوگوں کی طرف ہوگیا ۔یہ تحریکیں بھی چونکہ اسلام کے نام پر بنائی گئی تھیں اس لیے علماء کی اکثریت بھی دنیا کے مسائل کو سمجھنے میں ناکام رہی ہواور یا تو مصلحتاً خاموشی اختیار کرلی گئی یا پھر دبے دبے لفظوں میں ان تحریکوں کی حمایت شروع کر دی جو تھوڑی بہت تعداد رہ گئی تھی انہوں نے مغرب میں ہونے والے واقعات پر دفاعی پوزیشن لے لی اور ان مسائل کا حل نکالنے کی بجائے مگرمغربی پراپیگنڈا کو قبول کرنے پر اکتفا کیا۔ ایسے میں بہت کم ایسے لوگ تھے جو تحقیقی میدان میں ان مسائل کے حل کے لیے اسلامی تعلیمات کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوششوں میں لگے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ؟ عالم اسلام میں اپنے اندر پیدا ہونے والے اختلافات اور کسی ایسے رہنما ( جو ان مسائل کا ادراک کرکے حل نکال سکے )کی عدم موجودگی نے ان مسائل کو اور بڑھا دیا ۔ مشرق وسطیٰ میں ایران سعودی عرب چپقلش نے عالم اسلام کو تقسیم ہی نہیں کیا بلکہ ان تمام اسلامی فورمز کو بھی مردہ کر دیا جو ایسے مسائل کے حل کے لیے بنائے گئے تھے ۔اللہ بھلا کرے کہ افغانستان میں عالمی استعمارکو اپنے اہداف میں شکست ہونے لگی تو ایک نئی دنیا سامنے آنے لگی جہاں کسی ایک سپرپاور کی حکمرانی کی بجائے مختلف قسم کے اتحاد سامنے آنے لگے ۔ دنیا میں طاقت اور اثرورسوخ کے مفہوم بدلتے چلے گئے ۔ فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ معاشی و ثقافتی میدان میں بھی نئے نئے اتحاد وجود میں آنے لگے ۔ گزشتہ ایک عشرے میں ریاستوں کے تعلقات کی نوعیت ایک مرتبہ پھر تبدیل ہونے لگی اور کوئی مانے یا انکار کرے اس کا سہرا بہرحال افغان جنگ کے سر پر جاتا ہے جس نے تاریخ کا رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
گزشتہ سال کرونا وباء نے بھی دنیا کو نئے انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ اس وباء نے جہاں سماجی میل جول کر محدود کر دیا وہیںریاستوں کو مل جل کر آفات سے نبٹنے کے لیے بھی تیار کیا ۔ چین اور مغرب کی مخاصمت کے باوجود یہ پہلا موقع تھا کہ چین نے معاشی مفادات سے ہٹ کرمغربی دنیا کی مدد کی اور ویکسی نیشن پوری دنیا میں مفت تقیسم کرنے میںپہل کی۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ چین اور مغرب تجارتی میدان میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں تاہم اس دوڑ میں جو مثبت پہلو برآمد ہوا ہے وہ علاقائی سطح پر مختلف فورمز کا بحال ہو نا ہے ۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی جہاں جنوبی ایشیا میں امریکی مداخلت کے اختتام کو دور شروع ہورہا ہے وہیں کچھ پرانے حلیف بھی دوبارہ سے تعمیروترقی کے لیے پھر سے اکٹھے ہورہے ہیں ۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ موجودہ قیادت نے بھی حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے درست سمت سفر کا آغاز شروع کر دیا ہے جس کا اثر یقینی طور پر آنے والے دنوں میں نظر آئے گا۔ عالم اسلام میں بھی اب نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے ، پاکستان میں عمران خان ، سعودی عرب میں محمد بن سلیمان ، ترکی میں طیب اردگان، ایران میں ابراہیم رئیس سمیت دیگر اسلامی ممالک کے رہنما نئی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں محمد بن سلیمان کی جانب سے ایران کے حوالہ سے مثبت بیان اور اس پر ایرانی وزارت خارجہ کا مثبت ردعمل ایک نئے مشرق وسطی کی جانب پہلا قدم ہے ۔ مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا کے خلاف وزیراعظم پاکستان نے آواز اٹھائی اور اسلامی تنظیم او آئی سی نے ہر سال پندرہ مارچ کو’’یوم انسداد اسلامو فوبیا‘‘ دن منانے کی قرارداد متفقہ طور پرمنظور کر لی ۔ یہی نہیں بلکہ وزیراعظم نے دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر اس کا توڑ کرنے کے لیے بھی کام کرنے کی ٹھان لی ہے ۔اسی حوالہ سے رواں سال کے آخر میں پاکستان ، ترکی اور آزر بائیجان نے مل کر مشترکہ حکمت عملی پر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا ۔عمران خان کے اس مشن کو مکمل کرنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ان دنوں بھی انہی تین ممالک کے دورہ پر ہیں ۔ اسد قیصر کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کے سپاہی کی حیثیت سے نہ صرف اپنے قائد کے مشن کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کریں گے بلکہ موجودہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تینوں ممالک کے درمیان پارلیمانی سطح پر بھی اقدامات کیے جائیں گے ۔ اگرچہ ترکی میں بڑھکنے والی آگ کے باعث پاکستانی وفد ترکی کا دورہ کرنے کی بجائے آزربائیجان سے ہی واپس آرہا ہے تاہم یہ طے پاچکا ہے کہ 2022کے آغاز میں پاکستان تینوں ممالک کے اسپیکرز کے دوسرے سہ فریقی اجلاس کی میزبانی کرے گا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ یہ تنیوں ممالکمذہبی اخوت، تاریخی اور ثقافتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ۔آرمینیا کے ساتھ ناگورنو کاراباخ کے معاملہ پر پاکستان نے کھل کر آزربائیجان کے درست موقف کی حمایت کی تھی۔ اسی طرح ترکی نے بھی اس معاملہ پر آزربائیجان کا ساتھ دیا تھا جبکہ آزربائیجان بھی جہاں پاکستان کے ساتھ ثقافتی و مذہبی رشتوں میں بندھا ہوا ہے وہاں مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کرتا رہا ہے دوسری طرف ترکی بھی ہمیشہ سے پاکستان کی تائید کرتا رہا ہے ۔